محل تبلیغات شما

نسیم حیات



مقدمہ

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان آغاز خلقت سے ہی تنہائی سے گریز کرتے ہوئے اجتماعی زندگی اور اپنے آس پاس میں زندگی بسر کرنے والوں سے مختلف نوعیت کے رابطے اور میل و ملاپ بڑھانے کی سعی و تلاش میں رہا ہےیہ نہ فقط اسکی طبیعت کی خاصیت تھی بلکہ اسکی  فطرت کا بھی تقاضا تھا اسلامی نقطہ نظر سے بھی اگر دیکھا جائے تو کائنات کی ہر چیز جوڑے کی صورت میں خلق ہوئی ہے اسی فطری اور طبیعی  غریزے کو پورا کرنےاور دوسرے موجودات کی نسبت  عقل کے نایاب گوہر  سے بہرمند ہونے کی وجہ سے اپنی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دو میں رہا  آہستہ آہستہ تاریخ انسانیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ نہ فقط ایک معاشرے سے وابستہ افراد کے درمیان آپسی رابطے بڑھنے لگے بلکہ معاشروں کےدرمیان ایک دوسرے سے رابطے بھی عمیق اور گہرے ہونے لگےخاص کرعصرحاضر میں علم و صنعت اور ٹکنولوجی کی روز افزوں ترقی کی بناپر یہ رابطے اتنے وسیع ہونے لگے کہ عصر حاضر کو عصر ارتباط (Cominication World) کے خطاب سے بھی نوازا گیا اس سے بڑھ کر ان گہرے روابط کی وجہ سے  پورا عالم ایک معاشرے میں تبدیل ہوکے رہ گیا جس کی بنا پر عالم کاری وغیرہ جیسے نظریات بھی وجود میں آئے  لیکن اس تگ و دو میں مشرق اور مغرب سارے معاشروں کی یہی کوشش رہی ہے  کہ اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ہر زاویے سے لائق اور بہتر سے بہتر معاشرہ کی شکل میں پیش کرے یہاں تک کہ مغرب والے دوسروں سےایک قدم آگے  بڑھاتے ہوئے اس بات کے دعوے دار بھی بن بیٹھے کہ سب سے بہترین معاشرہ انکے یہاں ہی پایا جاتا ہے لہذا اگر دنیا میں دوسرے معاشروں کے لئے کوئی نمونہ عمل ہوسکتا ہے تو وہ ہمارا معاشرہ ہے۔ یہ بھی انسان کی فطرت کے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ انسان یا تودوسروں کے لئے اپنے آپ کو نمونہ عمل پیش کرنے پر فخر کرتا ہے یا پھر کافی توانایی نہ ہونے کی صور ت میں دوسروں کے نقش قدم پہ چل کے اپنے اندر پائے جانے والے ضعف اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہےلوگوں کی طرح معاشرے اور سوسائٹی کا بھی یہی حال ہے اسی لئے انسان کے اس دیرینہ آرزو اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے طویل مدت سے انسانیت کے دوست اور دشمن دونوں ایک مثالی معاشرے یا ماڈل سوسائٹی کا خاکہ پیش کرتے رہےوہ پتھر کے زمانے کا انسان ہو یا قدیم یونان کے حکیم ہوں عصر جاہلیت کے سردار ہوں یا تاریخ اسلام کے نامور حکیم اور فلاسفر، ہر ایک نے اپنی علمی اورفکری سطح  کے اعتبار سے مثالی معاشرے کی سنگ بنیاد ڈالنے کی نظریاتی جدوجہد کی ہےلیکن چنانچہ عقل بشری کتنا ہی علمی اور فکری آسمانوں کی معراج کرتی رہے، ابھی تک کائنات اور انسان کے بہت سارے اسرار و رموز سے ناواقف ہےاور جب تک انسان اپنی فکر جولان گاہ کو وحی الہی کے چشمہ فیضان سے سیراب نہ کرے انسانیت کے عروج اور سربلندی کے لئے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل بھی ادھوری  رہے گی  آج اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وحی الہی کے چشمہ فیض سے سیراب ہونے والے کائنات کی بے مثال ہستی کے انمول بیانات کی روشنی میں  ایک ایسے مثالی معاشرے کی سنگ بنیاد ڈالتے ہیں جن کے مبارک اقوال کو‘‘دون کلام خالق اور فوق کلام بشر’’ کہا گیا ہے جی ہاں یہ مولائے ین علی(ع) کا مبارک کلام ہےیہ انسانیت کے لئے نہج البلاغہ جیسی نایاب اقوال پر امام (ع) کا ایک عظیم تحفہ ہے جس میں مثالی معاشرے کے خدو خال بیان کرنے میں ہم اپنی کم علمی اور ہزاروں عیب  کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط ایک اجمالی سیر کریں گے اور ہماری کوشش یہی رہے گی  امام علی کے ہاتھوں تشکیل پانے والے مثالی معاشرے کے تمام جوانب کی طرف  اشارہ کیا جائے نہج البلاغہ کی نورانیت میں جو معاشرہ چاند، ستاروں کی طرح چکمتا نظر آرہا ہے وہ انسان کے ہراخلااقی ، ثقافتی،معاشرتی، ی، معیشتی، اور کئ دوسری خصوصیات اپنے تمام جوانب کے ساتھ بیان کررہا ہےیہ مثالی معاشرہ منفر د ہے یہ انسانوں کا معاشرہ ہے اسے مثالی انسانی معاشرہ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گانہج البلاغہ کی روشنی میں ایک ایسے مثالی معاشرے کو تلاش کرناخود ہی بہت اہمیت کا حامل ہے آج کے دور میں تڑپتی اورسسکتی ہوئی انسانیت جہاں انسانما افراد کے ہاتھوں لہولہاں ہے، وہیں انسانیت کے دوستداروں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ معاشرے کو ہر انداز سے بہتر سے بہتر بناکے انسانیت اور اسکے اقدا کو ہمیشہ کے لئے زندہ اور جاوید رکھا جائے  میں  پھر سے اپنی کمی علمی کا اعتراف کرتا ہوں اور ساتھ ہی اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ میری کوشش یہی رہی ہے کہ دوسری کتابوں سے کم سے کم استفادہ کرکے نہج البلاغہ پر ہی زیادہ توجہ کروں اسی لئے پروردگار عالم کے بعد اپنے مولائے کائنات کےچوکھٹ پہ سرخم کرکے آپ ہی سے مدد کا طلبار ہوں کہ میری فکری توانائیوں میں اپنے مبارک کلام کوصحیح ادراک کرنےکی صلاحیت عطاکرے  اور قلم کی روانی میں مثالی معاشرے کی انمول  خصوصیات  بیان کرنے کی سکت عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

مثالی معاشرے کی ضرورت و اہمیت:

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر خلقت کے مقاصد اور انسانی کی اجتماعی زندگی کے ناقابل انکار پہلو کو ملحوظ نظر رکھا جائے، ایک مثالی معاشرے کی ضرورت خودبخود عیان ہوجاتی ہے مکتب نہج البلاغہ میں نہ صرف ایک انسانی معاشرے کی ضرورت پر ہی زوردیا گیا ہے بلکہ ایک صالح اورمثالی معاشرے کے تشکیل پربھی کافی تاکید کی گئی ہےامام علی(ع)انفرادی زندگی اور رہبانیت سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتے ہوئے معاشرے میں یکجا اور آپس میں ملکر رہنے کی تاکید فرماتے ہیں۔

(وَالْزَمُوا السَّوَادَ الاَعْظَم فَإِنَّ یَدَ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَإِیَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ! فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطَانِ، كَمَا أَنَّ الشَّاذَّةَ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ)”همیشہ مسلمانوں کی جمع غفیر سے پیوستہ رہو یقینا خدا کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور تفرقہ کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اکیلا آدمی شیطان کا نوالا ہوتا ہے جس طرح اکیلا بھیڑ، بھیڑئے کا شکار ہوجاتا ہے

آپ کی نظر میں ایسے مراکز اور معاشرے میں زندگی گزارنی چاہیے جہان مسلمانوں کا کافی مجمع ہو اور توحید پرست افراد ست  پزیر ہوں اور ایسی سوسائٹی سے دوری اختیار کرنی چاہیے جہاں ظلم و ستم اور خدا کی ذکر و عبادت سے غفلت کی جاتی ہو۔

(وَاسْکُنِ الْأَمْصَارَ الْعِظَامَ فَإِنَّهَا جِمَاعُ الْمُسْلِمِینَ وَاحْذَرْ مَنَازِلَ الْغَفْلَةِ وَالْجَفَاءِوَقِلَّةَ الْأَعْوَانِ عَلَی طَاعَةِ اللَّهِ)”ایسے بڑے بڑے شہروں میں ست اختیار کروجہاں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد پائی جاتی ہو اور ایسے معاشروں میں ست اختیار کرنے سے پرہیز کرو جہاں یاد خدا سے غفلت،ظلم کا ساتھ اور خدا کی قلیل عبادت کی جاتی ہو

اسی طرح ایسے معاشرے میں پروان چڑھنے والے افراد کے نیک صفات بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ اجتماعی روابط برقرار کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

(ثُمَّ الْصَقْ بَذَوِی الْمُرُوءَاتِ وَالاَْحْسَابِ، وَأَهْلِ الْبُیُوتَاتِ الصَّالِحَةِ، وَالسَّوَابِقِ الْحَسَنَةِ، ثُمَّ أَهْلِ النَّجْدَةِ وَالشَّجَاعَةِ، وَالسَّخَاءِ وَالسَّماحَةِ، فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ الْكَرَمِ، وَشُعَبٌ مِنَ الْعُرْفِ)[iv] ”پھر اسکے بعد اپنا رابطہ بلند خاندان ، نیک گھرانے، عمدہ روایات والے اور حاصبان ہمت و شجاعت و سخاوت و کرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اور نیکیوں کا سرچشمہ ہیں

پس ایسے نیک صفات آدمی جس معاشرے میں بھی پائے جاتے ہوں وہ معاشرہ بیشک انمول ہوگاامام فقط ایسے معاشرے کی تشکیل پر تاکید کرتے ہیں ایسے انسانی اقدار زندہ رکھنے والوں سے معاشرت کرنے کی تلاش میں ہیں پس ان فرمایشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کواپنے اعلی مقاصد اور انسانی کمالات تک پہنچنے کے کئے ایک مثالی معاشرے کی ضرورت ہے۔

مثالی معاشرے کے بنیادی ارکان۔

ایک چھوٹے سے چھوٹے اجتماع اور جماعت سے لیکر ایک معاشرے اور سوسائٹی تک کی بنیاد کے کچھ اصول، مبنی اور ارکان  ہوتے ہیں اور انہی اصول اور ارکان کو ملحوظ نظر رکھتے ہوے اس معاشرے کے دوسرے سارے امور انجام پاتے ہیں  مکتب نہج البلاغہ میں تشکیل پائے جانے والا مثالی معاشرہ بھی کچھ اہم اصول اورارکان کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے امام علی (ص)نے ہر جگہ ان ارکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انسان کو اپنے مثالی معاشرے کی حقیقت سے آشنا کرایا ہے مقالہ کی طوالت سےپرہیز کرتے ہوے یہاں  صرف سب اہم اور بنیادی ارکان کی جانب اشارہ کریں گے۔

توحید:

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی سماج میں رائج سکولر اور لیبرل نظام کی بنیاد غیردینی ہے اور مغربی دانشور اپنے ماڈل سماج کے بنیادی رکن کو انسان محوری(humemism)قرار دیتے ہیں لیکن مکتب نہج البلاغہ کے مثالی معاشرے کے اندر توحید مرکزی کردار ادا کرتی ہے یہ مختلف شکلوں میں رائج انسان پرستی اور بت پرستی سے دور توحید پرستی کا معاشرہ ہے توحید دوسرے سارے اصول اور ارکان کے لئےسرچشمہ  کی حیثیت رکھتی ہے اگر توحید نہ ہو تودوسرے سارے ارکان اور خصوصیات  بے معنی ہوجاتے ہیں یہاں ہر چیز پہ انسان کی نہیں بلکہ خدا کی نظارت ہے‘‘لا حکم الاّ الله’’ جلوہ نما ہےہر فعل و عمل میں توحید کا نظارہ کیاجاتا ہے ‘‘مارأیت شیئا و رایت الله قبله و معه و فیه’’ ‘‘ اسی لئے ایسے معاشرے میں پروش پانے والی نسل سے خطاب ہوتے ہیں:

(فَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذی أَنْتُمْ بِعَیْنِهِ، وَ نَوَاصیكُمْ بِیَدِهِ، وَ تَقَلُّبُكُمْ فی قَبْضَتِهِ، إِنْ أَسْرَرْتُمْ عَلِمَهُ، وَ إِنْ أَعْلَنْتُمْ كَتَبَه) ”اس اللہ سے ڈرو کہ تم جس کی نظروں کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھ میں تمہاری پیشانیوں کے بال اور جس کے قبضہ قدرت میں تمہار ا اٹھنابیٹھنا او ر چلنا پھرنا ہے اگر تم کوئی بات مخفی رکھو گے تو وہ اس کو جان لے گا اور ظاہر کرو گے تو اسے لکھ لے گا

جس طرح قرآن مجید توحید کے محور پر مومنین اور مسلمین کوایک مثالی معاشرہ تشکیل دے کے عدالت الہی قائم کرنے پر زود دیتا ہے بالکل ویسے ہی نہج البلاغہ بھی ایک خدا، ایک معبود، ایک خالق کی جانب دعوت دے کے، حقیتقت میں سارے معبود کی نفی اورمثالی معاشرے میں حائل سارے موانع کو دور کرنا چاہتا ہے۔

قرآن کریم کی نگاہ میں بعثت انبیاء کا فلسفہ خدا اور توحید کی بنیاد پر لوگوں کو دعوت دینا اور قوموں کے درمیان  تفرقہ اور جدائی ڈالنے والے زمانے کے سامراجی اور استعماری طاقتوں، سے مقابلہ کرنا مقصود ہے۔

(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ )(نحل ٣٦)”اور بیشک ہم نے ہر امت کے لئے ایک رسول بھیجا تا کہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے دوری اختیار کریں

نیز امام علی (ص)نہج البلاغہ میں اسی فلسفہ اور حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الاَْوْثَانِ إِلَى عِبَادَتِهِ، وَمِنْ طَاعَةِ الشَّیْطَانِ إِلَى طَاعَتِهِ، بِقُرْآن قَدْ بَیَّنَهُ وَأَحْكَمَهُ، لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ) ”پروردگار عالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا بتاکہ آپ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کر عبادت الہی کی منزل  کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت  کرائیں اس قرآن کے ذریعہ سے جسے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں

آپ اہل رائے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں مشترکہ عقیدہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مثالی معاشرے کے اس اہم رکن اور مبنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”سب کا خدا ایک ، نبی ایک اور کتاب ایک ہے یعنی جب معاشرے پر توحید پرستی حاکم ہو تو اختلاف معنی ہی نہیں رکھتا۔

ایک اور جگہ لشکر شام کے بنیادی عقاید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں توحید کے مبنی پر اتحاد اور یکجہتی استوار کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔[x] کیونکی عقیدہ توحید کی بناپر ہی مثالی معاشرے میں سالمیت پیدا ہوسکتی ہے۔

یہ فرمایشات اسی بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عملی اور نظریاتی میدان امام علی(ص) کے مثالی معاشرے کا سب سے بنیادی رکن  توحید ہی ہے یہ معاشرہ توحید پرستوں کا معاشرہ ہےنہ کہ انسان پرستوں کا۔

قرآن:

اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک صالح اور نیک معاشرے کی سعادت اور ترقی کے لئے ایک صالح قانون کا ہونا بھی ضروری ہے نہج البلاغہ کی دنیا میں صالح قانون قرآن ہے جو امام علی(ص) کے مثالی معاشرے کا دوسرا اہم رکن قرارپایا ہے آپ نے قریب بیس سے زیادہ خطبوں میں تعلیمات قرآن کوعملی جامہ پہنانے پر تاکید کی ہے آپ کا مثالی معاشرہ قرآن کے اصول اور قوانین پر استوار ہےامام کی فرمایشات کے مطابق انسان اور انسانی معاشرے کا سب سے بہترین ھادی قرآن ہے ایک ایسا نور ہے جو کبھی خاموش ہونے والا نہیں ہےمعاشرے کی ساری بیماریوں کا علاج اس میں پوشیدہ ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔

(وَعَلَیْكُمْ بِكِتَابِ اللهِ، فَإِنَّهُ الْحَبْلُ الْمَتِینُ، وَالنُّورُ الْمُبِینُ، وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ.) ”اور تم پر لازم ہے کہ کتاب خدا پر عمل کرو کہ یہی مضبوط ریسمان اور روشن نور اور مفید علاج ہے.

آپ خطبہ نمبر(198) میں تفصیل سے قرآن کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا رھرو کبھی گمراہ نہیں ہوگا انسان کے ایمان کی اصل قرآن ہی ہے یہ اسلام کا مضبوط ستون ہے گویا مثالی معاشرے کی استواری کے لئے ہر طرح کا علم و برہان اور ہدایت اس میں پائی جاتی ہے معاشرے کے معیشتی، قضایی، عبادی، ی وغیرہ امور کو انجام دینے کے واسطے قرآن ہی سب سے بہترین ھادی ہے اسی لئے مکتوب نمبر(47)میں اپنی آخری وصیت میں یہی فرماتے ہیں کہ ‘‘ الله الله فی القرآن لایسبقکم بالعمل به غیرکم’’ ‘‘دیکھو اللہ سے ڈرو قرآن کے بارے میں اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں’’

اسی قرآن میں مثالی معاشرے کے امور کو تنظیم کرنے کی معلومات موجود ہے ماضی سے عبرت اور مستقبل میں آئیڈئیل سوسائٹی کو بہتر سے بہتر بنانے کے فرامین پائے جاتے ہیں

(أَلاَ إِنَّ فِیهِ عِلْمَ مَا یَأْتی، وَالْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِی، وَدَوَاءَ دَائِكُمْ، وَنَظْمَ مَا بَیْنَكُمْ) ” اس میں مستقبل کا علم ہے اور ماضی کی داستان ہے تمہارے درد کی دوا ہے اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے

آپ(ع) لوگوں سے بیعت لےتے وقت اس بات کہ جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں تشکیل پائے جانے والا مثالی معاشرہ قرآن کے اصول اور قوانین پر استوار ہوگا۔

(و اعلموا أنّی إنْ أجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بكم ما أعْلَمُ، و لَمْ أُصْغ ِإلی قولِ القائل و عَتْب ِالعاتبِ) ”تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا۔ جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی شرزنش پر کان نہیں دھروں گا۔

اور اپنے علم کے مطابق عمل کرنے سے مراد تعلیمات قرآن اور رسول اکرم(ص) کی پاکیزہ سیرت کے مطابق عمل کرنا ہے چنانچہ آپ قرآن ناطق بھی ہیں اور وارث علم پیغمبر بھی۔(ادعوکم الی کتاب الله و سنة نبیة۔۔۔) ”میں تمہیں کتاب خدا اور اسکے نبی کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں

پس امام علی(ع) کے خوبصورت اور پاکیزہ شہر اور بے مثال معاشرے میں قرآن حاکم ہے قرآن کے اصول اور قوانین نافذ ہیں لہذا اسکی تشکیل کے نظری اور عملی میدان میں قرآن پاک کا ایک اہم اور بنیادی کردارہےاسی لئے یہ معاشرہ اور وں کے مقابلے میں زیادہ پائیدا اور استوار ہے کیونکہ اس کے ارکان ابدی اور مستحکم ہیں۔

سیرت پیغمبر (ص)

مکتب امام علی(ع) کے مثالی معاشرے اور آئیڈیل سوسائٹی کا تصور رسول پاک(ص) کی سیرت طیبہ کے بغیر ناممکن ہے آنحضور(ص)کی سیرت طیبہ کو نظریاتی اور عملی میادین میں اجرا کرنا امام کے مثالی معاشرے کے اہم ترین ارکان میں سے ہے دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ امام علی(ع) کا مثالی معاشرہ رسالت مآب(ص)کی سیرت کا عملی نمونہ ہے کیونکہ پیغمبراکرم(ص) اپنی پوری زندگی انہی دو مذکورہ رکن (توحید اور قرآن ) کو لوگوں کی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے تھےپس آئیڈئیل سوسائٹی کے قیام کے لئے آپ توحید کا پیغام اور انسانیت ساز آئین لے کے بشریت کے پاس آئے تھے امام علی(ع) خطبہ نمبر(۱۶۰)میں اس بات کی جانب واضح الفاظ میں اشارہ کرتے ہیں کہ آنحضور(ص) کی زندگی مکمل طور سے نمونہ عمل ہے اسی لئے بیعت کے وقت لوگوں سے اس بات کا تعہد لیتے ہیں کہ میرے سارے امور کا مبنی اور محور قرآن اور آنحضور(ص) کی پاکیزہ اور مثالی سیرت رہے گی۔

(اَدعوکم الی کتاب الله و سنه نبیة) ‘‘میں تمہیں کتاب خدا اور اسکے نبی کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں’’

کیونکہ توحید کے بعد یہی دین کے اہم ستون میں حساب ہوتی ہےآپ شہادت سے پہلے اس حقیقت کی جانب اشارہ فرماتے ہیں کہ اگر معاشرے کو زندہ اور نورانی اور سعادتمند بنانا چاہتے ہو تو ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا ہوگا۔

(أَمَّا وَصِیَّتِی: فَاللهَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئاً، وَمُحَمَّداً فَلاَ تُضَیِّعُوا سُنَّتَهُ، أَقِیمُوا هذَیْن الْعَمُودَیْنِ، وَأَوْقِدُوا هذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ) ”میری وصیت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک قرار نہ دینا اور پیغمبر کی سنت کو ضائع نہ کرنا کہ یہی دونوں دین کے ستون ہیں انہیں کو قائم کرو اور انہیں دونوں چراغوں کو روشن رکھو

آپ کی نظر میں سیرت نبوی (ص)سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور مضبوط سیرت ہے اگر اسے معاشرے کےبنیادی امور میں جگہ دی جائے تو مثالی معاشرے کی تشکیل بھی یقینی ہوجاتی ہے۔

(اقتدوا بهدی نبیکم فانه اصدق الهدی و استنو بسنة فانها اهدی السنن)[xxi] ”اپنے نبی کی ہدایت کی اقتدا کرو کیونکہ وہ سب سے مصدق ہدایت ہے اورآپکی سنت اور سیرت پر عمل کرو کیونکہ وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ سنت اور سیرت ہے

امام اس حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہیں کہ  بعثت سے پہلے لوگ اختلافات اور انتشار کے شکار تھے معاشرہ بدحالی میں مبتلا تھا لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارتے تھے لیکن آنحضور(ص) کی ذات مبارک کی برکت سے وہ تفرقہ اور اختلافات کی گمراہی سے نجات پاکے اتحاد کی نورانی ہدایت اور سعادت سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں اور اس زمانے کے سب سے برے معاشرے کو دنیا کے سب سے اعلی اقدار رکھنے والے انسانی اور مثالی معاشرے میں تبدیل کرتے ہیں جو رہتی دنیا تک آنے والی ہر نسل کے لئے نمونہ عمل بن کے رہ گیا۔

(وَ اهْلُ الاَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَهٌ وَ اهْواءٌ مُنَتِشرَهٌ وَ طَرائِقُ مُتشَتِّتَهٌ بَیْنَ مُشْبِّهٍ لِلّهِ بِخَلْقِهِ اوْ مُلْحِدٍ فِى اسْمِهِ اوْ مُشِیرٍ الى غَیْرِهِ، فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَهِ)[xxii] ”اس وقت اہل زمین مختلف مذاہب ، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔ کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا ۔ کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا۔ اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔ مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا

آپ (ع)کی نظر میں آنحضور(ص) نےنہ صرف ایک صالح  اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے اصول و ضوابط لوگوں تک پہنچائے بلکہ عملی جد وجہد کے ذریعہ اسکی سنگ بنیاد بھی رکھی۔

(فَصَدَعَ بَمَا أُمِرَ بِهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةِ رَبِّهِ، فَلَمَّ اللهُ بِهِ الصَّدْعَ، وَرَتَقَ بِهِ الْفَتْقَ، وَأَلَّفَ بِهِ بَیْنَ ذَوِی الاَْرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِی الصُّدُورِ، والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِی الْقُلُوبِ)”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہونچادیا ۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا۔ شگاف کو بھردیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اور دلو ںمیں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے

لیکن پیغمبر اکرم(ع) کی پاکیز ہ سیرت کو سمجھنے اور مثالی معاشرے میں اجرا کرنے کے لئے ہم اہلبیت رسول(ع) کے در کے محتاج ہیں اگر صحیح معنوں میں ہمیں سیرت نبوی کو سمجھنا ہوگا تو اہلبیت کی جانب رجوع کرنا ہوگا کیونکہ وہیں حقیقی دین کے مالک ہیں حق اور حقیقت کا صحیح پیغام انہیں کے پاس موجود ہیں۔

(نَحْنُ الشِّعَارُوَالاَْصْحَابُ، وَالْخَزَنَةُ وَالاَْبْوَابُ، وَلاَ تُؤْتَى الْبُیُوتُ إِلاَّ مِنْ أَبْوَابِهَا، فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَیْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّیَ سَارِقاً فِیهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ، وَهُمْ كُنُوزُ الرَّحْمنِ، إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا، وَإِنْ صَمَتُوا لَمْ یُسْبَقُوا)[xxv] ”در حقیقت ہم  اہلبیت ہی دین کے نشا  ن اور اس کے ساتھی ، اس کے احکام کے خزانہ دار اور اس کے دروازے ہیں اور ظاہر ہے کہ گھروں میں داخلہ دروازوں کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے ورنہ انسان چور کہلائے گا۔ انہیں اہلبیت کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانہ دار ہیں یہ جب بولتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں لے جا سکتا ہے

اسی طرح خطبہ نمبر (97) میں ان کے نقش قدم پر ہوبہو چلنے کا حکم دیتے ہیں ان کی راہ سے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہیں پس ان فرمایشات کی بناپر مکتب نہج البلاغہ کے مثالی معاشرے میں آنحضرت(ص) کی پاکیزہ سیرت کو ایک مبنی اور رکنیت کی حیثیت سے ملحوظ نظر رکھنا ناقابل انکار حقیقت ہےلیکن اس سیرت طیبہ کو اجرا کرنے کے لئے ہمیں اہلبیت (ع) کی چوکھٹ پر سر تسلیم خم کئے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔

زندگی کی صحیح آ ئیڈیالوجی۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے پر حاکم آئیڈیالوجی اور جہاں بینی بھی معاشرے کی سعادت اور ترقی میں اثرانداز ہوتی ہے اگر معاشرے میں پلنے والے افراد ، موت کو ہی اختتام زندگی سمجھنے لگیں توطبیعی طور سے اس زندگی سے کسی بھی طرح کی اچھی یا بری لذت اٹھانے سے وہ اجتناب بھی نہیں کریں گے لیکن اگر موت کو ابدی زندگی تک پہنچنے کا ایک وسیلہ سمجھیں تو معاشرہ بھی دوسری نوعیت کا وجود میں آئے گاامام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا ایک اوراہم رکن زندگی کی صحیح آئیڈیالوجی ہے دنیاوی اور اخروی زندگی کے حَسین امتزاج اور گہرے رابطے کا صحیح ادراک و فہم ہےامام علی(ص) زندگی کے صحیح معنی اور مفہوم سمجھانے کی سعی و تلاش کرتے ہیں آپ نے مختلف خطبوں میں لوگوں سے یہی تقاضا کیا کہ دنیا کو آخرت کی گزرگاہ سمجھ کے زندگی بسر کریں۔(الدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ)  ”دنیا ایک گزرگاہ ہے ایک منزل نہیں ہے

بلکہ اس سے بڑھکر دنیا نفع اور نقصان  کا ایک کمرشل بازارہے جس میں ہر کوئی سرمایہ گذاری کرتا ہے بعض نفع حاصل کرتے اور بعض افراد اپنا سرمایہ کھوکے نقصان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

(الدُّنیا سَوقٌ رَبِحَ فِیْها قَوْمٌ وَ خَسِرَ فِیْها آخَرُون) ”دنیا ایک بازار ہے جس میں ایک گروہ نفع حاصل کرتا ہے اور دوسرے کو نقصان ہوتا ہے

آپ کی نظر میں مثالی معاشرہ اور حیات اخروی کا ایک دوسرے کے ساتھ  کافی مضبوط رابطہ پایاجاتا ہے پہلا، دوسرے کو سنوارنے میں اتنا ہی مؤثر ہے جتنا دوسرے پہ توجہ کرنا دنیا کے آباد ہونے میں اثر انداز ہے، اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی سعادت اورشقاوت آمیز زندگی کا آپس میں کافی گہرا اورمستقیم رابطہ  ہے گویا دائمی عالم آخرت کو یاد کئے بغیر کرہ زمین پر ایک مثالی معاشرے کی بنیاد ڈالنا ناممکن ہے نیزانسانی اور اسلامی اقدار کی راہ میں حرکت کئے بغیر آخرت کی سعادتمند زندگی حاصل کرنا امکان پذیر نہیں ہے۔

اسی طرح خلقت کے اصلی ہدف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ تمہیں  آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہذا اس سرای فانی سے کوچ کرنے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہو

(وَاعْلَمْ أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلاْخِرَةِ لاَ لِلدُّنْیَا، وَلِلْفَنَاءِ لاَ لِلْبَقَاءِ، وَلِلْمَوْت لاَ لِلْحَیَاةِ، وَأَنَّكَ فِی مَنْزِلِ قُلْعَة وَدَارِ بُلْغَة، وَطرِیق إِلَى الاْخِرَةِ) ”یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں۔ تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اور تم اس گھر میں ہوجہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہےاور تم آخرت کے راستے پر ہو

قیامت کواس دنیا کا مقصد اور غایت سمجھیں اور اسکے لئےہمیشہ خود کوآمادہ رکھاکریں۔

(اعدوا له قبل نزوله فان الغایة القیامة و کفی بذالک واعظا لمن عقل و معتبراَ لمن جهل)”آخرت میں وارد ہونے سے پہلے ہی اپنے آپ کو آمادہ کرو کیونکہ تمہارا غایت اور آخری مقصد قیامت ہی ہے لہذا عقلمند انسان کے لئے ایک واعظ کی حیثیت سے اور جاہل کے لئے ایک عبرت آموز کی حیثیت سے تصورقیامت کافی ہے

لہذااس آئیڈیالوجی کو مدنظر رکھتے ہوئےدنیا کو آخرت کی سرمایہ گذاری سمجھ کے بھر پور فائیدہ اٹھانا چاہیے۔

پس ان فرمایشات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ آئیڈیالوجی بھی معاشرے کی تشکیل میں ایک بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہے اگرمعاشرے کے افراد ایسے عقیدہ کے حامی نہ ہوں تو مثالی معاشرہ تو دور ایک عام ، صحیح اور سالم معاشرے کا قیام بھی ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔


مثالی معاشرے کی ضروت اور ارکان  کی وضاحت کے بعد اب اسکی اہم اور بے مثال خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اسے دوسرےغیر اسلامی مشرقی اور مغربی معاشرے سے الگ اور متمایز کردیتی ہیں یہ خصوصیات معاشرے کے ی، اجتماعی، ثقافتی، معیشتی، امنیتی میادین وغیرہ سے مکمل رابطہ رکھتی ہیں امام کی نظر میں جب تک ایک مثالی اور آئیڈیل سوسائٹی کے اندرایسی خصوصیات اور صفات نہ پائی جائیں تب تک اسکے اہداف اور خلقت کے اصلی مقاصد کی دستیابی بھی ناممکن ہے۔ اگر چہ مکتب امام کے ایسے معاشرے  میں بہت ساری صفات اور خصوصیات کی جانب اشارہ ملتا ہے لیکن مقالہ کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری کوشش یہی   ہے کہ اس کی اہم ترین خصوصیات کو بیان کرنے پہ ہی اکتفا کریں گے۔

آزادی

اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادای انسان کا پیدایشی حق ہے عصر حاضر میں جتنا آزادی بشر کے بارے میں لکھا اور کہاجاتا ہے شاید ہی انسانی تاریخ کے کسی اور دور میں اس سلسلے میں گفت و شنید ہوئی ہوامام علی(ع) کے مثالی معاشرے کی سب سے اہم اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی آزادی سے مالا مال ہے اس میں زندگی گزارنے والے افراد اپنی ذاتی اور معنوی آزادی سے لیکر ی آزادی پر مکمل اختیار رکھتے ہیں آپکی آرزو یہی ہے کہ اس معاشرے کے سارے افراد کے اندر اپنے آپ کو ہر طرح کے قید و بند سے آزاد سمجھنے کا شعور اور سلیقہ پیدا ہوجائے نہ یہ کہ آزادی کو حکمران کی جانب سے لایا ہو ایک تحفہ جانیں۔

شہید مطہری فرماتے ہیں:ی اور اجتماعی آزادی تک پہنچنے کے لئے معنوی آزادی بھی ضروری ہے یعنی انسان اپنی قید اوراسارت سے بھی آزاد ہوجائے۔

امام(ع) اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَیْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً َ) ”کسی کا غلام مت بنو کیونکہ خدا نے تمہے آزاد پیدا کیا ہے

آپ سخت اور دشوارترین حالات میں بھی لوگوں کے اس ذاتی حق کا بھرپور خیال رکھتے تھےچنانچہ جب سہل بن حنیف نے مدینہ میں معاویہ کے ساتھ لوگوں کی ملاقات کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: (فَلاَ تَأْسَفْ عَلَى مَا یَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِهِمْ، وَیَذْهَبُ عَنْكَ مِنْ مَدَدِهِمْ، فَكَفى لَهُمْ غَیّاً وَلَكَ مِنْهُمْ شَافِیاً، فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدَى والْحَقِّ، وَإِیضَاعُهُمْ إِلَى الْعَمَى وَالْجَهْلِ)”خبردار تم اس عدد کے کم ہوجانے اور اس طاقت کے چلے جانے پر ہرگز افسوس نہ کرنا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور تمہارے س نفس کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ لوگ حق و ہدایت سے بھاگے ہیں اور گمراہی اور جہالت کی طرف دوڑپڑے ہیں

اسی طرح حکمیت کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہونے پر فرمایا: (وَلَیْسَ لِی أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!) ”میں تمہے کسی ایسی چیز پر آمادہ نہیں کرسکتا ہوں جو تمہیں ناگوار اور ناپسند ہو

ی امور میں آزادی کے حوالے سے لوگوں کا سب سے اہم حق، انتخاب کا حق ہوتا ہے یہ بات طلحہ اور زبیر کو لکھے گئے ایک خط سے روشن ہو جاتی ہے کہ امام نے اس حوالے سے  بھی لوگوں  کومکمل آزادی دے رکھی تھی۔

(أَنِّی لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِی، وَلَمْ أُبَایِعْهُمْ حَتَّى بَایَعُونِی، وَإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِی وَبَایَعَنِی، وَإِنَّ العَامَّةَ لَمْ تُبَایِعْنِی لِسُلْطَان غَاصِب، وَلاَ لِعَرَض حَاضِر) ”میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے سے چاہاتھا اور میری بیعت کی تھی اور عام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب دأب سے کی ہے اور نہ کسی مال و دنیا کی لالچ میں کی ہے

یعنی لوگ ہر طرح سے آزاد تھے کسی مجبوری یا جبر و زیادتی کی وجہ سے میری بیعت نہیں کی ہے اسی طرح اھل کوفہ کو ایک خط لکھتے ہوئے لوگوں کے آزاد اور مختار ہونے کی جانب اشارہ فرماتے ہیں: (بَایَعَنِی اَلنَّاسُ غَیْرَ مُسْتَكْرَهِینَ وَ لاَ مُجْبَرِینَ بَلْ طَائِعِینَ مُخَیَّرِین )”لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ، بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور مختار

پس ان اقوال کی روشنی میں یہ بات ہمارے لئے روشن ہوجاتی ہےکہ امام علی (ع)کا معاشرہ آزاد  معاشرہےیہاں اپنی ذاتی اور معنوی آزدی سے لیکر ی امور کی آزادی کا پوراخیال رکھاجاتا ہے اس مثالی معاشرے میں آزاد نسل پروان چڑھتی ہے غلامی کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

صالح قیادت:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک چھوٹے سے گھرانے سے لیکر ایک بڑی جماعت تک کے لئے ایک قائد کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے ہر طرح کی سستی اور بے انضباطی سے بچاتے ہوے اس کے اندر نظم و انضباط پیدا کرسکےامام علی (ع)کی نظر میں ہر معاشرے کے لئے ایک حاکم اور قائد کی ضرورت ہے۔ (لاَبُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیر بَرّ أَوْ فَاجِر ) ”لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا برالیکن مثالی معاشرے کی قیادت کے کچھ معیار ہیں امام کا مثالی معاشرہ صالح اور نیک قیادت کی حاکمیت پر استوار ایک ایسا منفرد معاشرہ ہے جس کے ی، معاشرتی، ثقافتی امور کو ادارہ کرنے کے لئے شایستگی، اور صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے نہ کسی حسب و نسب کو، اسی لئے ایسے افراد کی باتوں پر اظہار تعجب کرتے ہیں جوخلافت اور امت مسلمہ کی حاکمیت کی گدی پربیٹھنے کے لئے صرف آنحضور(ص)کے صحابی ہونے کے معیار کو کافی جانتے تھےاگر یہی معیار ہے تو پھر میں زیادہ مستحق خلافت ہوں کیونکہ میں صحابی کے علاوہ قرابت دار بھی ہوں۔ (وَا عَجَبَاهْ أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ وَ الْقَرَابَةِ) ”واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپر مل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہوجائیں تو نہیں مل سکتی ہے

آپ ہر طرح کے حسب و نسب اورذاتی روابط کی نفی کرتے ہوے مثالی معاشرے کے لائق اور صالح قائد اور رہبرکی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:(وَمَكَانُ الْقَیِّمِ بِالاَْمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ یَجْمَعُهُ وَیَضُمُّهُ: فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ وَذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ یَجْتَمِعُ بِحَذَافِیرِهِ أَبَداً) ”ملک میں ایک رہبر کی جگہ اس محکم دھاگے کی مانند ہے جو مہروں کو متحد کر کے آپس میں ملاتی ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے گاتوسارا سلسلہ بکھر جائے گا اورپھرہرگز دوبارہ جمع نہیں ہوسکتا ہے

اور اسی طرح رھبر اور قائد امت مسلمہ ہونے کے ناطے اپنا تعارف یوں کراتے ہیں:

(و انما انا قطب الرحا تدور علیّ و انا بمکانی ، فاذا فارقته استحار مدارها و اضطرب ثفالا) ”میں حکومت کی چکی کا محور ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے اگر میں اپنے محور سے دور ہوا تووہ اپنے مدار سے ڈگمگا جائے گی اور اسکی نیچے کی بساط بھی متزل ہوجائیگی

امام علی (ع)کے مثالی معاشرے میں غیر صالح قائدکی کوئی جگہ نہیں ہےکیونکہ رعیت اپنے حاکم کی اتباع کرتی ہے لہذا فاجر اور فاسق حاکم کی صورت میں پوری رعیت فاسد ہوجائے گی لیکن صالح اور نیک حاکمیت کی صورت میں معاشرہ بھی صالح اور نیک بن جاتا ہے اسی بناپرآپ ایک صالح رھبر اور قائد کے بغیر مثالی معاشرے کی تشکیل بھی ناممکن جانتے ہیں۔

(فَلَیْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِیَّةُ إِلاَّ بِصَلاَحِ الْوُلاَةِ) ”رعایا کی اصلاح تب تک ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو

اسی طرح آپ نے مختلف مقامات پر ایک صالح اور مثالی رھبر اور قائد کی خصوصیات اور صفات بھی بیان فرمائے ہیں عادل اور منصف قائد کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سائے میں پیدا ہونے والے مثالی معاشرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(اتقوا الله و اطیعوا امامکم فان الرعیة الصالحة تنجو بالامام العادل، الا و ان الرعیة الفاجر تهلک بالامام الفاجر) ”خدا سے ڈرو اور اپنے رہبر اور پیشوا کی اطاعت کرو کیونکہ صالح قوم عادل پیشوا کے ذریعہ سے نجات پاتی ہے خبردار فاسد قوم فاسد پیشوا کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہے

پس یہ بات کافی حد تک واضح ہوگی کہ امام علی کے مثالی معاشرے کا ایک اہم جز صالح قیادت ہے یہاں صلاحیت اور اچھائی کی پرورش ہوتی ہےنہ حسب و نسب کی بناپر برائی کی ترویج اسی لئے یہ معاشرہ ہر طرح کی برائی سے پاک ہے۔

قانون گرایی:

نہج البلاغہ کی دنیا میں تشکیل پانے والے مثالی معاشرے کی ایک اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک قانون گرا معاشرہ ہے یہاں قانون اور ضوابط کی حاکمیت ہے کسی کو حق نہیں بنتا کہ اپنے نفع کی خاطر یا نقصان سے بچنے کے لئے قانون کو پاؤں تلے روند دے آپ معاشرے میں اٹھائے گئے کسی بھی ی، اجتماعی یا فوجی اقدامات کی وجہ نفاذ قانون اور شریعت ہی بتلاتے ہیں آپ خالق کائنات کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ اَنَّهُ لَمْ یَكُنِ الَّذِی كانَ مِنّا مُنافَسَةً فِی سُلْطانٍ وَ لا الْتِماسَ شَیْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطامِ وَ لكِنْ لِنَرُدَّ الْمَعالِمَ مِنْ دِینِكَ وَ نُظْهِرَ الْإِصْلاحَ فِی بِلادِكَ فَیَأمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِكَ وَتُقامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ) ”بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں)ظاہر ہوا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر )پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کر یں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے )جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیاہے

آپ کی نظر میں مثالی معاشرے  کی تشکیل کا ایک اہم ذریعہ حکومت اسلامی کا قیام ہے جس کے سائے میں اس کے اصلی مقصد یعنی قانون الہی کو بھی اجرا کیا جاسکتا ہے آپ عملی صورت میں خلافت اسلامی کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ بھی یہی نفاذ شریعت ہی بتلاتے ہیں۔

(وَاللهِ مَا كَانَتْ لِی فِی الْخِلاَفَةِ رَغْبَةٌ، وَلاَ فِی الْوِلاَیَةِ إِرْبَةٌ وَلكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِی إِلَیْهَا، وَحَمَلْتُمُونِی عَلَیْهَا، فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَیَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللهِ وَمَا وَضَعَ لَنَا، وَأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهِ فَاتَّبَعْتُهُ، وَمَا اسْتَسَنَّ النَّبِیُّ صلى الله علیه وآله فَاقْتَدَیْتُهُ) ”خدا کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لئے خلافت اور حکومت کی حاجت و تمنا نہیں رہی تم ہی لوگوں نے مجھے اس کی طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ جب وہ مجھ تک پہنچ گئی تو میں نے اللہ کی کتاب کو نظر میں رکھا اور جو لائحہ عمل اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور جس طرح فیصلہ کرنے کا اس نے حکم دیا میں اسی کے مطابق چلا اورجو سنت پیغمبر قرار پاگئی اس کی پیروی کی

اسی طرح مالک اشتر کو قانون الہی اجرا کرنے کی سخت تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مثالی معاشرے میں سعادتمند زندگی کے حصول کے لئے قانون کا نفاذ ضروری ہے و گرنہ معاشرہ بربادی کے دلدل میں گرجائے گا۔

(امره بتقوی الله،و ایثار طاعته، واتباع ما امر به فی کتابه من فرائضه وسننه، التی لایسعد احد الا باتباعها ولایشقی الا مع جحودها و اضاعتها) ”سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اس کی اطاعت کو اختیار کرو اور جن فرائض کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کئے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت نہیں قرار دیا جاسکتا

مثالی معاشرے میں قانون ہی ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے میں برابری اور مساوات قائم کردیتی ہے اور ہر طرح کی تبعیض ختم کرکے ایک صالح معاشرہ وجود میں لاتی ہے امام علی(ع) کے قانون میں تبعیض کی کوئی گنجایش نہیں اپنے ی پیغام میں مالک اشتر سے یہی چاہتے ہیں کہ قانون میں مساوات سے کام لے کیونکہ قانون کے آگے سب برابر ہیں۔

(وَإیَّاكَ وَالاْسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِیهِ أُسْوَةٌ) ”دیکھو جس چیز میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا

اسی طرح حلوان کے سپاہیوں کے سپہ سالار اسود ابن قطبہ کے نام لکھے ایک خط میں قانون کی برابری پر زور دیتے ہیں۔

(فَلْیَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِی الْحَقِّ سَوَاءً) ”لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے

لیکن ان الہی قوانین کو ہر کوئی اجرا نہیں کرسکتایہ تھوڑے ہی مغربی معاشرے کے قانون گذار ہیں جو اپنے نفع و نقصان کو دیکھ کے قانون بناتے ہیں اور ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہونے کے بعد بھی قانون اجراکرنے کے دعو ے دار بن جاتے ہیں یہ امام علی(ع) کا مثالی معاشرہ ہےیہاں قانون نافذ کرنے والے افراد کو ہر طرح کے عیب اور نقائص سے پاک ہونا چاہیے۔

(لَا یُقِیمُ أَمْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ إِلَّا مَنْ لَا یُصَانِعُ وَ لَا یُضَارِعُ وَ لَا یَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ) ”حکم الہی کا نفاذ وہی کرسکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اور عاجزی و کمزوری کا اظہار نہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو

پس نہج البلاغہ میں تشکیل پانے والا مثالی معاشرہ قانون گرا اور قانون مدار معاشرہ ہے ایک ادنی اور عام آدمی سے لیکر ایک حاکم اعلی تک سب کے سب قانون کے آگے یکسان اور برابر ہیں یہان نفاذ قانون کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی تبعیض نہیں کی جاسکتی۔

حق مداری:

مکتب نہج البلاغہ میں بیان ہونے والا مثالی معاشرہ حق مدار ہے حق اور حقیقت پر مبنی ہےاس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے افراد کا معیار اور محور حق ہیں ایسے افراد (یعترف بالحق قبل ان یشهد علیه)[l] ”گواہی طلب  کئےجانے سے پہلے حق کا اعتراف کرتے ہیں اور (و یصف الحق و یعمل به) ”حق کی معرفت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیںآپکی نظر میں بیان و توصیف کے اعتبار سے حق کا دائرہ کافی وسیع ہے لیکن عملی میدان میں کافی تنگ ہے۔

(وَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاشْیَاءِ فِی التَّواصُفِ، وَ اَضْیَقُها فِی التَّناصُفِ،) ”اور حق مدح سرایی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہےلیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے

مثالی معاشرے میں حق محوری کو فروغ دینے کے لئے امام لوگوں سے حق اور عدالت آمیز مشورہ دینے کی ترغیب کرتے ہیں اور ہر طرح کے ڈر اور خوف کی نفی کرتے ہیں آپ کی نظر میں مثالی معاشرے کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ حاکم، عوام کی حق بات کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سنتا ہے اور انکے حق اور عدالت آمیز مشوروں سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے کی فلاح اور بہبود کی جدوجہد میں رہتا ہے یہ سلطنت اور شہنشاہی نظام نہیں ہے جہاں حق اور حقیقت کا گھلا گھونٹا جاتا ہے یہاں ہر چیز کا محور اور مرکز حق ہے ۔

(وَ لا تَظُنُّوا بِی اسْتِثْقالاً فِی حَقِّ قِیلَ لِی، وَلا الْتِماسَ إِعْظامٍ لِنَفْسِی، فَإِنَّهُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ انْ یُقالَ لَهُ، اَوِالْعَدْلَ انْ یُعْرَضَ عَلَیْهِ كانَ الْعَمَلُ بِهِما اَثْقَلَ عَلَیْهِ، فَلا تَكُفُّوا عَنْ مَقالَةٍ بِحَقِّ اَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ) ”میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میر ے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اورعدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اسے حق او رانصاف پرعمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگاتم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو

پس امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا محور حق  ہے یہاں ادنی فقیر سے لیکر اعلی حاکم تک سب کے سب حق بیانی میں یکساں ہیں یہ معاشرہ اس زاویے سے بھی دوسرے معاشروں سے ممتاز ہے چونکہ عصر حاضر میں مثالی معاشرے کا پرچم اٹھانے والنے مغربی تہذیب کے حامی محض باطل کی ترویج میں ہیں یہ معاشرے حق کشی اور حق تلفی میں اول درجے پر ہیں انہیں مکتب نہج البلاغہ کے اس حق مدار اور حق محور معاشرے پر ایک بار پھر سے غور کرنا چاہیےیہاں حق کہاجاتا ہے حق سناجاتا ہے اور حق پہ عمل ہوتا ہے باطل کی کوئی گنجایش نہیں۔

عقل گرایی:

کائنات میں صرف انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ تعالی نے عقل کے نایاب گوہر سے نوازا ہے انسان اور حیوان کے درمیان عقل ہی فصل ممیز ہے لہذا جو انسان اپنی عقل سے استفادہ نہ کرے وہ بھی حیوان ہے بلکہ قرآن کی نظر میں کبھی حیوانوں سے بھی پست  اور نیچا ہوجاتا ہے.(اولئک کالانعام بل هم اضلّ (سوره اعراف، ۱۷۹)امام علی(ع)کے مثالی معاشرے میں عقل کا عنصر کافی عمل دخل رکھتا ہے یہ عقلمندوں کامعاشرہ ہے اس معاشرے  پر عقلانیت حاکم ہے یہاں جاہلیت ،بے جا غیرت اور غیرمعقول احساسات کی کوئی گنجایش نہیں ہے آپ کی نظر میں زمانہ جاہلیت کا معاشرہ عقل و درایت سے عاری ایک حیوان نما اور درندہ ساز معاشرہ تھاپیغمبر کی بعثت کی جانب اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں: (واَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِینٍ وَ فِی شَرِّ دَارٍ مُنِیخُونَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَحَیَّاتٍ صُمِّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وَ تَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ تَقْطَعُونَ اَرْحَامَكُمْ الْاءَصْنَامُ فِیكُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ)”(پیغمبر کی بعثت سے پہلے)تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے ، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے

پیغمبر نازنین (ص)نے انہیں جہالت کی تاریکی سے نکال کر نور ہدایت اور عقلانیت سے نوازا۔

(فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَه)”مالک(خدا) نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا

(ویثیروا لهم دفائن العقول) ”اور انکی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں

امام علی(ع) کا فرمان ہے کہ جہاں عقلانیت نہ ہو وہاں تباہی اور فساد حاکم ہو تا ہے آپ معاویہ کے ہاتھوں ترویج پائے جانے والے غیراسلامی معاشرے کی ایک اہم  وجہ عوام اور لوگوں کی اندھی تقلید اور ناآگاہی جانتے ہیں۔

(. وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّهِ قَائِدُهُمْ مُعَاوِیَةُ وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ) ”. وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کاپیشرو معاویہ اور معلم نابغہ(عمرعاص) کابیٹا ہے

اسی طرح امام علی(ع) عقل گرایی کی بنیاد پر احساسات کو ابھارنے سے پرہیز دلاتے ہیں جنگ صفین میں سپاہیوں کی ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی خبر ملنے پر فرمایا:

(إِنِّی اكْرَهُ لَكُمْ اَنْ تَكُونُوا سَبّابِینَ وَ لكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ اَعْمالَهُمْ وَ ذَكَرْتُمْ حالَهُمْ كانَ اَصْوَبَ فِی الْقَوْلِ وَ اَبْلَغَ فِی الْعُذْرِ وَ قُلْتُمْ مَكانَ سَبِّكُمْ إِیّاهُمْ اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمائَنا وَ دِمائَهُمْ وَ اَصْلِحْ ذاتَ بَیْنِنا وَ بَیْنِهِمْ وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلالَتِهِمْ حَتَّى یَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهُ، وَ یَرْعَوِیَ عَنِ الْغَیِّ وَ الْعُدْوانِ مَنْ لَهِجَ بِهِ)”میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو اگر تم ان کےکرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو، تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدا یا ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی، اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لاتا کہ حق سے بے خبر، حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جہالت اور ناآگاہی کی بنیاد پر ہی اپنے احساسات کا مطیع ہوجاتا ہے لیکن اگر عقل و درایت اور شعور پیدا ہو تو نہ فقط معاشرے کے اندر صلح و آشتی برقرار ہوتی ہے بلکہ گمراہی اور حق سے بٹھکے ہوئے افراد کو بھی حق اور ہدایت کے جام سے سیراب کیا جاسکتا ہےپس مثالی معاشرے کی اہم ترین خاصیت عقل گرایی ہے۔

علم گرایی:

اس میں کوئی شک نہیں کہ علم، آگاہی اور بصیرت سے عاری ذلیل افراد تباہی اور بربادی کا باعث بنتےہیں کیونکہ انکی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے اسیر اور شیطان کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں لیکن جو چیز انسان کی حقیقت، پہچان، کرامت، اور عزت کا باعث بنتی ہے اور اسکی حفاظت کرتی ہے وہ علم، آگاہی اور بصیرت ہے۔

پس اس حوالے سے ایک با شعور اور تعلیم و تربیت یافتہ معاشرہ ہی سعادتمند اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتاہے لہذا ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں علم و دانش کا ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔ امام علی کا مثالی معاشرہ علم و دانش سے مالا مال ہے۔

آپ علم  اور صاحبان علم کی قدر و منزلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (النَّاسُ ثَلَاثَةٌ فَعَالِمٌ رَبَّانِیٌّ وَ مُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِیلِ نَجَاةٍ وَ هَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ یَمِیلُونَ مَعَ كُلِّ رِیحٍ لَمْ یَسْتَضِیئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ وَ لَمْ یَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِیق) ”لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:خدا رسیدہ عالم، راہ نجات پر چلنے والاطالب علم اور عوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آواز کے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا کے ساتھ لہرانے لگتا ہے۔ اس نے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کا سہارا لیا ہے

امام  کی نظر میں انسان کی قدر و قیمت اسکے علم  و بصیرت کے مطابق ہے چنانچہ ایک معاشرہ مختلف افراد سے وجود میں آتا ہے لہذا معاشرے کی قدر و قیمت اس معاشرے کے صاحبان علم و معرفت سے لگایا جاسکتا ہے۔

(قیمة کل امرئ ما یعلم) ”ہر انسان کی قیمت اسکے علم و آگاہی کے مطابق ہے

آپ مزید فرماتے ہیں کہ معاشرے کی فلاح اور ترقی کا دارمدارعلم پرہے اور نیز ہر برائی اور پسماندگی  کی جڑ جہالت اور بیسوادی ہے(العلم اصل کل خیر) ”ہر نیکی کی جڑ علم ہے (الجهل اصل کل شر) ”ہر برائی کی جڑ جہالت ہے

اسی طرح کمیل بن زیاد سے علم اور مال کے درمیان تقابلی جائزہ کرتے ہوئے علم کی برتری پر زور دیتے ہیں۔ (حکمت ۱۴۷) نیز اپنے معاشرے کو مثالی بنانے کے لئے لوگوں کو علم و دانش حاصل کرنے کی ترغیب کررہے ہیں۔

(فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِیحِ نَبْتِهِ وَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُشْغَلُوا بِأَنْفُسِكُمْ عَنْ مُسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ اهْلِهِ) ”تمہیں چاہئے کہ علم کی طرف بڑھو قبل اس کے کہ اس کا (ہرا بھرا) سبزہ خشک ہو جائے اور قبل اس کے کہ اہل علم سے علم سیکھنے میں اپنے ہی نفس کی مصروفتیں حائل ہوجائیں

پس مثالی معاشرے کو تعلیم و تربیت کے بغیر تصور کرنا محال ہے لہذا علم و دانش اور صاحبان علم معاشرے کے ایک لازمی  جز میں شمار ہوتے ہیں اور معاشرے کی مادی اور معنوی ترقی اور پیشرفت میں ان کا اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔

عملی جدوجہد اور محنت:

اس میں کوئی شک نہیں مولائے کائنات علی (ع) ہر میدان میں محنت اور مشقت کرتے تھے چاہیے وہ جنگ کا میدان ہو یا پھر نخلستان کے باغات کی آبیاری کا کام ہو میدان علم ہو یا میدان عمل ، ہر جگہ جدوجہد اور تلاش جاری رکھتے تھے اس حیثیت سے نہج البلاغہ کا مثالی معاشرہ کاہلی اورسستی سے دورایک زحمتکش، عملی جدوجہد اور سعی وتلاش کرنے والے افراد کا معاشرہ ہے جہاں غربت اور افلاس کی کوئی جگہ نہیں ہے وہاں کے لوگ اپنی محنت اور مشقت کے بلبوتے پر آباد ہیں اس  معاشرے میں کام اور محنت کرنے کا حوصلہ اور ہمت بلند ہے معاشرے کی غربت کی ایک وجہ یہی کسالت اور کاہلی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

(ان الاشیاء لمّا ازدوجت، ازدوج الکسل والعجزفتنجا بینهماالفقر) ”جب امور ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں تو کسالت اور ناتوانی وجود میں آجاتی ہے اور ان دونوں سے غربت جنم لیتی ہے

لہذا جس معاشرے میں کام کاج اور عملی جدوجہد کی حاکمیت قائم ہوجس سوسائٹی میں لوگوں نے کام کاج اور محنت کو اپنا پیشہ بنایا ہو وہ کبھی افلاس اورغربت کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتی اسی لئے امام علی(ع) ایسے مثالی معاشرے میں پرورش پانے والے افرادکی محنت اور مشقت نیز اپنے اہل خانہ کی فلاح  و بھبود کی خاطرجدوجہد میں سحرخیزی کرنے کو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کی سحرخیزی سے بھی برتر جانتے ہیں۔

(ما غدوة احدکم فی سبیل الله باعظم می غدوة یطلب لولده وعیاله مایصلحهم) ”راہ خدا میں تمہاری سحرخیز کرنا ایسے شخص کی سحرخیزی سے بڑھکر نہیں ہے جو اپنی اولاد اور گھروالوں کی مصلحت کو نظر میں رکھتے ہوے طلب معاش کے لئے سحرخیزی کرے

نیز فرماتے ہیں کہ کام اور محنت سے ہی ہرطرح کی طاقت اور قدرت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن غربت اور بیکاری، تنگدستی اور غلامی ہی وجود میں لاتی ہے جس کا ایک لازمی نتیجہ فساد اور بربادی ہےجو کسی بھی طرح سے ایک مثالی معاشرہ اور آئیڈئل سوسائٹی سے تناسب نہیں رکھتا ہے۔

(ومن یعمل یزدد قوة و من یفتقر فی العمل یزدد قترة) ”جو شخص کام اور محنت کرتا ہے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے اور جو شخص کام چوری کرتا ہے اسکی تنگدستی میں اضافہ ہوجاتا ہے

پس اس بناپر مثالی معاشرہ ایک محنت کش افراد کا معاشرہ ہے جہاں ہر شخص اپنی ذاتی توانائیوں سے معاشرے کی ترقی اور سعادت کی راہیں ہموار کرتا ہےاپنے معاشرے کو غربت اور افلاس اور اسکے ذریعہ سے پھیلنے والی ہرطرح کی برائی اور فساد ، سے نجات دلاتا ہے۔

وحدت اورانسجام:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معاشرے اور قوم کی ترقی، سعادت اوربلند اہداف ایک دوسرے کے تعاون اور اتحاد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے نوع بشر کی دوام اور نسل نوین کی بقاء کا اساسی اور بنیادی عامل اتحاد اور اتفاق ہی ہے کیونکہ اجتماعی زندگی کی بقاء کا اہم راز اتحاد میں ہی پوشیدہ ہے مثالی معاشرے کی ایک اہم خصوصیت لوگوں کا آپسی اتحاد اور بھائی چارہ ہے شاید پوری کائنات میں  امام علی(ع) سے بڑھکر کوئی ایسا شخص ہی  نہیں ملےگا جس نے اتحاد کے لئے انتھک جدوجہد اور عظیم قربانیاں دی ہوں۔

(وَلَیْسَ رَجُلٌ ـ فَاعْلَمْ ـ أَحْرَصَ عَلَى جَمَاعَةِ أُمَّةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأُلْفَتِهَا مِنِّی.) ”امت كی شیرازه بندی اور اس كے اتحاد کے لئے مجھ سے زیادہ خواہش مند کوئی نہیں ہے

چنانچہ امام ایک آئیڈئل سوسائٹی کی تلاش میں ہیں اس لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے اتراتے نہیں ہیں اہل کوفہ کو سرزنش کرتے ہوئے کہتےہیں کہ خدا نے اس امت اسلامی پہ اتحاد اور بھائی چارہ کے ذریعہ سے احسان کیا اور انکے درمیان الفت قائم کی۔جیساکہ بیان کیا گیاامام علی (ع)کے مثالی معاشرے میں پیغمبر اکرم(ص)کی خاصی جگہ اور مقام و منزلت ہے اور آپکے وجود مبارک کے بغیر امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا تصور کرنا محال ہے امام آپکے وجود نازنین کو مثالی معاشرے کے اتحاد اور انسجام میں کافی اثرگذار جانتے ہیں۔

(فَانْظُرُوا إِلَى مَوَاقِعِ نِعَمِ اللهِ سُبْحَانَهُ عَلَیْهِمْ حِینَ بَعَثَ إِلَیْهِمْ رَسُولاً، فَعَقَدَ بِمِلَّتِهِ طَاعَتَهُمْ، وَجَمَعَ عَلَى دَعْوَتِهِ أُلْفَتَهُمْ) ”دیکھو!کہ اللہ نے ا ن پر کتنے احسا نات کئے ہیں کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کر دیا

نیز فرماتے ہیں:

(فَصَدَعَ بَمَا أُمِرَ بِهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةِ رَبِّهِ، فَلَمَّ اللهُ بِهِ الصَّدْعَ، وَرَتَقَ بِهِ الْفَتْقَ، وَأَلَّفَ بِهِ بَیْنَ ذَوِی الاَْرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِی الصُّدُورِ، والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِی الْقُلُوبِ) ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہونچادیا ۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا۔ شگاف کو بھردیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اور دلوںمیں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے

مولائے کائنات (ع) کی نظر میں پیغمبراکرم(ص)توحید کے مبنی پر انسانیت کے نام وحدت کلمہ کا پیغام لیکر آئے تھے جسکے ذریعہ سے مثالی معاشرہ تشکیل دے کےانہیں سربلند اور سرفراز کیا۔

(جَعَلَهُ اللَّهُ سُبْحانَهُ بَلاَغا لِرِسالَتِهِ، وَ كَرامَةً لاُمَّتِهِ، وَرَبِیعا لِاَهْلِ زَمانِهِ وَ رِفْعَةً لِاَعْوانِهِ، وَ شَرَفا لِانْصارِهِ) ”خدا نے اسے اپنی رسالت کا پیغامبر بناکے بھیجااور اپنی امت کے واسطے کرامت، اپنے ہمعصر کے لئے شادی بخش اور اپنے دوستوں اور مددگاروں کے واسطے بہت ہی مہربان اور شریف بناکے بھیجا

اسی لئے مثالی معاشرے میں آپسی اتحاد اور بھائی چارےکی انتہائی اہمیت ہے امام بار بار گذشتہ قوموں کی وحدت، تفرقہ اور اس سے برآمد نتائج اور آثار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وحدت اور انسجام پر کافی تاکید کرتے ہیں آپ کی نظر میں دوسرے معاشروں پر مثالی معاشرے کی سبقت اور برتری کا اہم راز اسی وحدت میں پوشیدہ ہے۔

” گزشتہ قوموں کو دیکھو جب وہ ایک دوسرے سے متحد تھے ان کے دل اور نظریات یکسان تھے ایک دوسرے کے یاور و مددگار تھے شمشیریں ایک دوسرے کی مدد کے لئے اٹھاتے تھے انکے عزم و ارادے ایک تھے ، کیا وہ زمین کے مالک نہیں تھے اور دنیا پر حاکم نہیں تھے؟

ہے زندہ فقط وحدت افکارسے ملت                      وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

پس مکتب امام علی (ع)میں پروان چڑھنے والے مثالی معاشرے کی یہ کچھ اہم اور بنیادی ی، اجتماعی اور ثقافتی خصوصیات تھیں جنہیں اجمالی طور بیان بیان کیا گیا ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر چیز کا ایک ہدف اور مقصد ہوتا ہے اور ہر چیز کے ہدف اور مقصد کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ اس کی ضرورت یا پھر اسکے مقابل یا اضداد کے نقصان سے لگایا جاسکتاہے اس بات سے بھی انکار کی قطعی گنجایش نہیں کہ مثالی معاشرے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد مثالی حکومت کی تشکیل ہے  قیام حکومت کی ضرورت کے بغیر ایک مثالی یا عمومی معاشرہ کی بقاء اور استحکام ناممکن ہے (لاَبُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیر بَرّ أَوْ فَاجِر)”لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا، لیکن اگراسے دوسرے اہداف اور مقاصد کے ساتھ تقابلی جائزے کی نگاہ سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ بھی ایک وسیلہ اور ذریعہ ہی ہے جو ہمیں ان اصلی اہداف کی جانب حرکت کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہوگا جن کے حصول کے لئے مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
امام علی(ع) ابن عباس سے فرماتے ہیں اگر اس حکوت کے ذریعہ سے حق کو زندہ کرنا اور باطل کو دور کرنا مطلوب نہ ہوتا تو ایک پھٹا پرانا جوتا میرے لئے اس سے زیادہ قیمتی تھا۔
(والله لَهِیَ أَحَبُّ إِلیَّ من إِمرتكم، إِلاّ أَن أُقیم حقّاً، أَوأَدفع باطلاً) اگر میرے پیش ِ نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا ہو تو تُم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔
جی ہاں مثالی معاشرے کی تشکیل کے واسطے ایک صالح اسلامی حکومت اور قیادت کے بھی  کچھ اہم  ابتدائی اغراض اور مقاصد ہیں جو در واقع مثالی معاشرے کےاصلی مقصد اور ہدف کا پیش خیمہ بنتے ہیں، مکتب نہج البلاغہ کی روشنی  میں ان  ابتدایی اہداف اور پھر مثالی معاشرے کے اصلی اور واقعی ہدف اور مقصد کی جانب اشارہ کریں گے۔
عدالت
امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا سب سے بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے تمام امور میں انسان کی فطرت کے مطابق عدالت  الہی اجرا ہوجائے ، انبیاء کرام(ع) کی بعثت کا ایک اہم مقصد بھی عدالت الہی اور اقامہ قسط ہے، (لیقوم الناس بالقسط۔۔۔(حدید 25) امام علی(ع) سورہ نحل کی  آیہ شریفہ کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ حقیقت عدالت سے مراد وہی انصاف ہے۔ 
آیہ کریمہ إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل، انصاف ہے اور احسان فضل و کرم، اور دوسری جگہ اس کے دائرے کو وسعت بخشتے ہوئے سخاوت کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں اس سے مراد صاحبان حق کو حق دلانا مقصود ہے یعنی عدالت حق کی رعایت کرنے کا نام ہے۔
(العدل یضع الامور مواضعها والجود یخرجها عن جهتها والعدل سائس عام والجود عارض خاص فالعدل اشرفهما و افضلهما) عدل امور کو اپنی جگہ پر بر قرار رکھتا ہے لیکن سخاوت امور کو انکی حدود سے خارج کردیتی ہے ۔عدل ایک عام ت گر ہے لیکن سخاوت کا اثر محدود ہے اسی لئے عدل جود و سخا کے مقابلے میں بہتر ہے۔
امام علی (ع) کی نظر میں عدالت  ذاتی طور سے ایک نیک اور اچھا کام ہے لہذا بغیر کسی دستور الہی کے بھی انسان کو عدالت اجرا کرنی چاہیے۔
(وَلَوْ لَمْ یَكُنْ فِیَما نَهَى اللهُ عَنْهُ مِنَ الْبَغْیِ وَالْعُدْوَانِ عِقَابٌ یُخَافُ لَكَانَ فِی ثَوَابِ اجْتِنَابِهِ مَا لاَ عُذْرَ فِی تَرْكِ طَلَبِهِ فَأَنْصِفُوا النَّاسَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ) اگر پروردگار نے بغاوت اور ظلم سے روکنے کے بعد اس پر عذاب بھی نہیں رکھا ہوتا تو اس سے پرہیز کرنے کا ثواب ہی اتنا زیادہ تھا کہ اس کے ترک کرنے میں کو ئی شخص معذور نہیں ہوسکتا تھا لہذا لوگوں کے ساتھ انصاف کرو
آپ نے عدالت کی مختلف تعبیریں بیان فرمائی ہیں کبھی دستورات الہی کی حیات کے محور کو عدالت ہی قرار دیا ہے اور کبھی معاشرے میں رائج اسلامی حکومت کا نظام نیز اس پر حاکم ت کا معیاربھی  عدالت ہی جانا  ہے۔اسی لئے حکومت کا سب سے بنیادی کام اپنے تمام امور میں عدالت اور انصاف سے کام لینا جانتے ہیں اسی زاویے سے  والی مصر مالک اشتر کو تحریر فرماتے ہیں کہ دیکھو تمہارا مقصد صرف عدالت اجرا کرنا ہو!
(وَلْیَكُنْ أَحَبَّ الاُْمُورِ إِلَیْكَ أَوْسَطُهَا فِی الْحَقِّ، وَأَعَمُّهَا فِی الْعَدْلِ، وَأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِیَّةِ)”تمہاری نظر میں سب سے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہئے جو حق کے مطابق ہو جس میں عدل عمومی ہو اور زیادہ زیادہ سے رعایا کی خوشنودی کا باعث ہو!
دوسری جگہ ملکی سطح پر عدالت اجراکرنے کو حکام کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کرتے ہیں: (وَإِنَّ أَفْضَلَ قُرَّةِ عَیْنِ الْوُلاَةِ اسْتِقَامَةُ الْعَدْلِ فِی الْبِلاَدِ، وَظُهُورُ مَوَدَّةِ الرَّعِیَّةِ) ”بے شک حکام اور والیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ملکی سطح پر عدالت کا قائم کرنا اور رعایا کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرنا ہے
حکمین کی خیانت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم نے انہیں اپنی باطل رأی واپس لینے سے پہلے عدل و انصاف کا حکم کرنے کے لئے کہا۔آپ کےمثالی معاشرے میں عدالت اجرا کرنے میں  دوست اور دشمن کا امتیاز نہیں کیا جاتا ہے چنانچہ یہ انسان کی ذات اور فطرت کے ساتھ عجین ہے لہذا دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش  آنا چاہیے۔
(علیک بالعدل فی الصدیق و العدو) ”دوست و دشمن کے ساتھ عدالت سےپیش آو
آپ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر عدالت اجرا ہوجائے تو سارے لوگ بے نیاز ہوجائیں گے اسی وجہ سے مملکت اسلامی کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لیتے ہی آپ کے حلقہ مبارک سے نکلنے والی عدالت انسانی  کی صدائیں اسلامی مثالی معاشرے کی فضاؤں میں گونجنے لگی۔
(لوعدل فی الناس لاستغنوا) ”اگر لوگوں کے درمیان عدالت اجرا ہوتی تو سارے لوگ ایک دوسرے سے بے نیاز ہوجاتے
یہی  عدالت جو مثالی معاشرے کے ابتدائی مقاصد میں شمار ہوتی ہے  خود بخود  اسلامی معاشرے کے دوسرے امور اور مقاصد تک پہونچنے کا ایک ذریعہ ہے اسی عدالت کی وجہ سے ہر قسم کی تبعیض ختم ہوکے معاشرے میں فلاح اور بہبودی وجود میں آتی ہےہر طرح کی غربت ، بربریت اور ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ (بالعدل تصلح الرعیة) ”عدالت اجرا کرنے سے رعایا میں اصلاح ہوجاتی ہے
پس ان فرمایشات  کی روشنی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی مثالی معاشرے کا ایک اہم مقصد عدالت انسانی کو احسن طریقہ سے اجرا کرنا ہے۔
امنیت۔
امنیت نہ فقط عالم انسانیت کا ایک اہم مقصد ہے بلکہ عالم حیوانات میں بھی یہ چیز ہر جانور، پرندے اور ات کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ امنیت ہی ہے کتنے ہی مغربی اور مشرقی نظام اور معاشرے وجود میں آئے تاکہ انسان کی زندگی میں چین و س اور امنیت برقرار کرسکیں لیکن یہ سب کے سب اس امرمیں ناکام ہوئے ہیں مثالی معاشرے کا ایک لازمی اور ناقابل تفکیک نتیجہ اور مقصد امنیت ہے امام علی(ع) کے اس خوبصورت مثالی معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے کسی بھی ذات، پات کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے کیوں نہ ہووہ اپنی زندگی کے تمام جوانب میں امن و امنیت کی لذت کو درک کرتے ہیں۔آپ کے نزدیک سب سے برا معاشرہ وہ ہے جو ناامنی کا شکا ہو۔
(شرالبلا بلد لاامن فیه و لا خِصَب) ”سب سے برا شہر اور معاشرہ وہ ہے جس میں امن نہ ہو مہنگائی سے خالی نہ ہو
اسی طرح فرماتے ہیں: (شرالاوطان مالم یأمن فیه القطان) ”سب سے برا وطن وہ ہے جس میں رہنے والے افراد ناامنی کے شکار ہوں
ان احادیث کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ اگر ناامن شہر، معاشرہ اور وطن سب سے بری جگہ ہیں تو اسکے عوض میں امن کی نعمت سے بھرا ہوا شہر ،معاشرہ اور وطن سب سے بہترین جگہ ہونی چاہیے لہذا اس بناپر امنیت مثالی معاشرے کے اہم اہداف کا حصہ ہونا چاہیے۔
قرآن کریم میں بھی رب العزت مثالی معاشرے کے اس اہم مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے۔
(وَلَیُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا) (سورہ نور ۵۵) ”اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا
امیرالمومنین(ع) بھی حکومت اسلامی کی ایک اہم وجہ معاشرے کی امنیت ہی بتلاتے ہیں۔
(فَیَاءْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِكَ،) ” تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو امن و امان حاصل ہوجائے
اسی طرح مالک اشتر کے نام لکھے ی پیغام میں جنگ و جدال سے کسی بھی طرح پرہیز کرتے ہوئے امنیت کی جانب توجہ کرنے پر زور دیتےہوئے فرماتے ہیں۔(وَلاتَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَیْهِ عَدُوُّ كَ لله فِیهِ رِضىً، فإِنَّ فِی الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ، وَرَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلاَدِكَ)”اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکار نہ کرنا جس کی تحریک دشمن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضامندی پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو قدرے س مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن و امان کی فضا قائم ہوجائے گی
اسی طرح سے شریعت اسلامی کے نفاذ کا ایک مقصد امنیت اور سلامتی بتلاتے ہیں۔
(الْحَمْدُ للهِ الَّذِی شَرَعَ الاِْسْلاَمَ فَسَهَّلَ شَرَائِعَهُ لِمَنْ وَرَدَهُ، وَأَعَزَّ أَرْكَانَهُ عَلَى مَنْ غَالَبَهُ، فَجَعَلَهُ أَمْناً لِمَنْ عَلِقَهُ، وَسِلْماً لِمَنْ دَخَلَهُ) ”تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے کہ جس نے شریعت اسلام کو جاری کیا اور اس (کے سرچشمہٴ) ہدایت پر اترنے والوں کے لیے اس کے قوانین کو آسان کیا، اور اس کے ارکان کو حریف کے مقابلے میں غلبہ و سرفرازی دی چنانچہ جو اس سے وابستہ ہو اس کے لیے امن جو اس میں داخل ہو اس کے لے صلح و آشتی
اور اسی طرح مثالی معاشرے پر حاکم وحدت اور انسجام سے پیدا ہونے والی امنیت  کی جانب خطبہ نمبر(١٩١)میں یوں اشارہ فرماتے ہیں:”انکی ذلت کو عزت بخشی اور انکے خوف کو امنیت میں بدل دیا
پس اگر مثالی معاشرے کی خصوصیات کی جانب توجہ کی جائے تو خود بخود یہ ہمیں اسکے اہم اور بنیادی مقصد امنیت کی جانب لے جاتی ہیں جی ہاں امام علی(ع)کے مثالی معاشرے کا ایک اور ابتدائی ہدف اور مقصد امنیت ہےکیونکہ ہرطرح کے خوف و ہراس سے عاری معاشرہ ہی ایک مطلوب اور مثالی معاشرہ ہوسکتا ہے ۔
تربیت:
تربیت ایک وسیع اور عام موضوع ہے یہاں پہ صرف اشارہ کے طور پر امام کے بعض اقوال کی روشنی میں اسے بیان کرناچاہتا ہوں آپ کےخوبصورت مثالی معاشرے اور سماج کا تیسرا اہم  مقصد انسان اور معاشرے کی تربیت ہے۔ تربیت یعنی کمال مطلق تک پہنچنے کے لئےانسان کی صلاحیتوں کو شکوفا کرنے  کی غرض سے موجودہ موانع کو دور کرکےضروری وسائل فراہم کرنا۔
آپ انبیاء کی فلسفہ بعثت کی وجہ بھی انسان کے اندر موجودپوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہی بیان فرماتے ہیں:”اللہ نےان میں اپنے رسول مبعوث کئے اور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کےعہدو پیمان پورے کرائیں۔۔۔عقل کے دفینوں کو ابھاریں اورا نہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں
نیز فرماتے ہیں:(وَبَعَثَ إِلَى الْجِنِّ وَالاِْنْسِ رُسُلَهُ، لِیَكْشِفُوا لَهُمْ عَنْ غِطَائِهَا)”اس نے جن و انس کی طرف اپنے رسول بھیجے ہیں تاکہ وہ نگاہوں سے پردہ اٹھادیں اور نقصانات سے آگاہ کردیں
امام علی(ع) کی نظر میں مثالی دینی حکومت کے حاکم اور قائد کی سب سے اہم ذمہ داری عوام  اور معاشرے کی تربیت کرناہے۔
(أَیُّهَا النَّاسُ! إِنَّ لِی عَلَیْكُمْ حَقّاً، وَلَكُمْ عَلَیَّ حَقٌّ: فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَیَّ: فَالنَّصِیحَةُ لَكُمْ، وَتَوْفِیرُ فَیْئِكُمْ عَلَیْكُمْ، وَتَعْلِیمُكُمْ كَیْلا تَجْهَلُوا، وَتَأْدِیبُكُمْ كَیْما تَعْلَمُوا)[xciv] ”اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے ، اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں ، جس پر تم عمل کرو
ان فرمایشات کی تایید میں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ قرآن بھی انبیاء کرام کا اہم مقصد تعلیم اور تربیت ہی بتلاتا ہے(سورہ جمعہ، آیہ  2 و آل عمران 164)
امام تربیت کے اس دائرے کو صرف رعایا اور عوام کی تربیت تک محدود نہیں کرتے بلکہ سب سے پہلے خود قائد اور رہبر کو اپنی ذات کی تربیت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
(مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْیَبْدَأْ بِتَعْلِیمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِیمِ غَیْرِهِ وَ لْیَكُنْ تَأْدِیبُهُ بِسِیرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِیبِهِ بِلِسَانِهِ وَ مُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَ مُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالْإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَ مُؤَدِّبِهِمْ) ”جو شخص اپنے کو قائد ملت بناکر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنے عمل سے تبلیغ کرے اور یہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہوتا ہے
پس اس بنا پر پہلے مرحلہ میں قائد خود کو تہذیب نفس اور تربیت کے زیور سے آراستہ کرے اور پھر مثالی معاشرے کے افراد اور رعایا کے تہذیب و تربیت پر کمر کسے کیونکہ سعادت اور خوشبختی عوام اور رعایا کی اصلاح اور تہذیب میں ہی پوشیدہ ہے۔
(من کمال السعادةالسعی فی صلاح الجمهور) ”سعادت کی انتہایہ ہے کہ جمہوریت کی اصلاح کے لئے سعی و تلاش کی جائے
پس تربیت عوام اور معاشرہ امام کے مثالی معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس معاشرے کی تشکیل کا اہم مقصد تربیت انسان ہے یہ تربیت عدالت اور امنیت کے سائے میں ہی حاصل ہوسکتی ہے گو یا یہ اہداف ایک دوسرے پر مترتب ہیں  لیکن اسکے باوجود بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مثالی معاشرے کی تشکیل کے ان اہداف اور مقاصدکے حصول کے کیا بعد کیا کرنا ہے ؟ کیا واقعی معنوں میں ان مقاصد کے حصول سے امام علی (ع) اس مقصد تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں توکیا کوئی اور مقصد بھی درکار ہے ؟
اصلی مقصد:
جی ہاں ان سارے سوالوں کا جواب یہی ہے کہ ابھی وہ مطلوبہ مقصد حاصل ہونا باقی ہےجس کے لئے مثالی معاشرے کو وجود میں لایا گیالہذاجو چیز امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کو دوسرے معاشروں سے جدا اور ممتاز بنادیتی ہے وہ اس معاشرے میں پرورش پانے والے انسان کےمتعلق آپکی جہان بینی اور آیڈیالوجی ہےآپ کی نظر میں آگانہ طور سے اقدار انسانی کی ارتقاء کی انتہا ان فطری صلاحیتوں کے احیاء پر موقوف ہے جو انبیاء کی بعثت کا اصلی مقصد تھا۔ (لیستادوهم میثاق فطرته)(خطبه۱)یہ شکوفایی حقیقت میں انسان کے درمیان حائل اس دیوار کو گرادیتی ہے جو اسے حقیقت ابدی تک پہنچنے سے باز رکھتی ہے اور اسے مقصد نہایی سے دور کردیتی ہےلہذا اس بناپر امام علی(ع) کے فرمایشات کے نتیجہ میں مثالی معاشرے کے مذکورہ تین اہم مقصد (عدالت، امنیت اور تربیت) اس میں پرورش پانے والے مثالی انسان کا واقعی مقصد نہیں ہوسکتے بلکہ واقعی مقصد تک پہونچنے کے لئے ہمیں آنحضرت(ع)کی دوسری فرمایشات کا سہارا لینا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک سے بھی اس بارے میں مدد لے سکتے ہیں کہ جس میں ارشاد ہو رہا ہے کہ خلقت کا بنیادی مقصد عبودیت اور معرفت الہی ہے جو فقط بندگی سے حاصل ہوتی ہے۔
(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ)( سورہ ذاریات۵۶)” میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت اور معرفت کے لئت پیدا کیا
اسی لئے  اس پورے عالم کوایک سعادتمند اور بے مثال معاشرہ بنانے اور انسان کو اپنے عبودیت کے مقام و منزلت سے آشنا کرنے کے لئےانبیاء کرام(ع)بھی ارسال کئے گئے۔(وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ)( سورہ انبیاء۲۵) ‘‘اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسکی طرف سے یہی وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو’’
یا دوسری آیہ شریفہ میں ہر معاشرے میں ایک پیغمبر اور رسول کے بھیجنے کا فلسفہ صرف خدا کی بندگی اور طاغوت سے اجتناب کہا گیا ہے۔
(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ)(نحل٣٦)” اور بیشک ہم نے ہر امت کے لئے ایک رسول بھیجا تا کہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے دوری اختیار کریں
نہج البلاغہ بھی بعثت پیغمبر (ص)کا سب سے اہم فلسفہ اور حکمت لوگوں کی بندگی اور عبودیت ہی  بتلاتا ہے۔
فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الاَْوْثَانِ إِلَى عِبَادَتِهِ، وَمِنْ طَاعَةِ الشَّیْطَانِ إِلَى طَاعَتِهِ، بِقُرْآن قَدْ بَیَّنَهُ وَأَحْكَمَهُ، لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ) ”پروردگار عالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیاتاکہ آپ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کر عبادت الہی کی منزل  کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت  کرائیں اس قرآن کے ذریعہ سے جسے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں
پس عبادت اور بندگی سب سے اہم ترین ہدف خلقت ہے اسی لئے امام علی (ع)پوری سعی و تلاش کررہے ہیں کہ انسان اپنے اصلی مقام اور منزلت (عبودیت) تک پہنچ سکے معرفت کے حوالے سے ‘‘معرفة الله اعلی المعارف یا اول الدین معرفته’’ہی مقصد حیات ہے اسی لئے  عبودیت کے حوالے سے ہمیشہ اپنے آپ کو عبد کہنا زیادہ پسند کرتے تھےاپنے حکومتی دستورات میں ہمیشہ یہی لکھتے تھے۔ ‘‘مِن عَبدِ اللهِ عَلی امیرالمومنین الی۔۔۔’’اسی طرح شہر میں تعینات مختلف والیوں کے نام لکھے خطوط نیز عوام الناس کو موعظہ کرتے وقت اکثر یا عبادالله یا عبد الله کا لفظ ہی استعمال میں لاتے تھے۔

پس مثالی معاشرے کا یہی وہ حقیقی اور اصلی مقصد ہے جس کے لئے پوری کائنات کو معرض وجود میں لایا گیا اور مولائے کائنات ہر حال میں ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے انتھک کوشش کی آج بھی اگر انسان باب علم پہ دستک دے کے اپنے معاشرے کو مثالی بنانا چاہتاہے تو اپنے آپ کوہر طرح کی ہوا و ہوس اور سامراجی ہتھکنڈوں سے آزاد کردے اگر اقدار انسانیت کی بقاء کی تمنا کرتا ہے تو اسے نہج البلاغہ کے نور ہدایت میں اپنے تاریک وجود کو روشن کرنا ہوگا۔


شعبان وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔

امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردارہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ سا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔

    شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزے رکھنے پر آمادہ کرو! میں نے عرض کیا، اس کی فضیلت کیا ہے؟ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :

 ” اے اہل مدینہ ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔

صفوان کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی ہے، اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ شعبان ورمضان دومہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔

   اسماعیل بن عبدالخالق سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا جب کہ روزہ شعبان کا ذکر ہوا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا: ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

  اس عظیم وشریف مہینے کے اعمال دو قسم کے ہیں:

  ”اعمال مشترکہ اوراعمال مخصوصہ

اعمال مشترکہ میں چند امور ہیں:

۱۔  ہرروز سترمرتبہ کہے:

استتغفراللہ واسئلہ التوبۃ

بخشش چاہتا ہوں اللہ سے اورتوبہ کی توفیق مانگتا ہوں

۲۔ ہر روز ستر مرتبہ کہے:

استغفراللہ الذی لآالہ الاھوالرحمن الرحیم الحی القیوم واتوب الیہ

بخشش کا طالب ہوں اللہ سے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بخشنہار ومہربان ہے زندہ بعض روایات میں الحی القیوم کے الفاظ نگہبان اور میں اس کے حضور توبہ کرتا ہوں زندہ وپائندہ الرحمن الرحیم سے قبل ذکر ہوئے ہیں

 بخشنے والا اور مہربان

پس جیسے بھی عمل کرے مناسب ہو گا ۔ روایت سے معلوم ہوتاہے کہ اس ماہ کا بہترین عمل استغفار ہے اور اس مہینے میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے ۔

۳۔  صدقہ کرے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو ، اس سے خدا اس کے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔

  امام جعفرصادق علیہ السلام سے ماہ رجب کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ تم شعبان کے روزے سے کیوں غافل ہو؟ راوی نے عرض کی فرزند رسول! شعبان کے ایک روزے کا ثواب کس قدر ہے؟ فرمایا قسم بخدا کہ اس کا اجروثواب بہشت ہے۔ اس نے عرض کی اے فرزند رسول ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے ؟ فرمایا کہ صدقہ واستغفار ، جو شخص ماہ شعبان میں صدقہ کرے پس خدا اس صدقے میں اس طرح اضافہ کرتا رہے گا جیسے تم لوگ اونٹنی کے بچے کو پال کرعظیم الجثہ اونٹ بنا دیتے ہو۔ چنانچہ یہ صدقہ قیامت کے روز احد پہاڑ کی مثل بڑھ چکا ہوگا۔

۴۔  پورے ماہ شعبان میں ہزارمرتبہ کہے:

لآالہ الا اللہ ولانعبد الا ایاہ مخلصین لہ الدین ولوکرہ المشر

نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور ہم عبادت نہیں کرتے مگراسی کی ہم اس کے دین سے خلوص رکھتے ہیں اگرچہ مشرکوں پرناگوار گزرے-

    اس ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے ، جس میں سے ایک جز یہ ہے کہ جو شخص مقررہ تعداد میں یہ ذکر کرے گا اس کے نامئہ اعمال میں ایک ہزار سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔

۵۔  شعبان کی ہر جمعرات کو دورکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سومرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد سومرتبہ درود شریف پڑھے تاکہ خدا دین ودنیا میں اس کی ہر نیک حاجت پوری فرمائے۔

واضح ہو کہ روزے کا اپناالگ اجروثواب ہے اور روایت میں آیا ہے کہ شعبان کی ہر جمعرات کو آسمان سجایا جاتا ہے تب ملائکہ عرض کرتے ہیں ، خدایا آج کے دن کا روزہ رکھنے والوں کو بخش دے اور ان کی دعائیں قبول کر لے۔ ایک حدیث میں مذکور ہے اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں پیراور جمعرات کو روزہ رکھے تو خداوند کریم دنیا وآخرت میں اس کی بیس بیس حاجات پوری فرمائے گا۔

۷۔  شعبان میں ہر روز وقت زوال اور پندرہ شعبان کی رات امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی صلوات پڑھے

تیسری شعبان

          یہ بڑا بابرکت دن ہے ، شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ اس روز امام حسین بن علی علیہما السلام کی ولادت ہوئی نیز امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل قاسم بن علاہمدانی کی طرف سے فرمان جاری ہوا کہ بروز جمعرات ۳شعبان کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ پس اس دن کا روزہ رکھیں

پندرھویں شعبان کی رات

  یہ بڑی بابرکت رات ہے ، امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام محمدباقرعلیہ السلام سے نیمہ شعبان کی رات کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یہ رات شب قدر کے علاوہ تمام راتوں سے افضل ہے ۔ پس اس رات تقرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کرناچاہیے ۔ اس رات خدائے تعالٰی اپنے بندوں پر فضل وکرم فرماتا ہے اور ان کے گناہ معاف کرتا ہے ۔ حق تعالی نے اپنی ذات مقدس کی قسم کھائی ہے کہ اس رات وہ کسی سائل کو خالی نہیں لوٹائے گا سوائے اس کے جو معصیت ونافرمانی سے متعلق سوال کرے۔ خدا نے یہ رات ہمارے لیے خاص کی ہے ، جیسے شب قدر کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص فرمایا پس اس شب میں زیادہ سے زیادہ حمدوثناء الہٰی کرنا اس سے دعا ومناجات میں مصروف رہنا چاہیے۔

 اس رات کی عظیم بشارت سلطان عصرحضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے جو ۲۵۵ھ میں بوقت صبح صادق سامرہ میں ہوئی تھی۔

اس رات کے چند ایک اعمال ہیں :

۱۔ غسل کرنا جس سے گناہوں میں تخفیف ہوتی ہے۔

۲۔ نماز اور دعا واستغفار کے لیے شب بیداری کرے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جو شخص اس رات بیدار رہے تو اس کے دل کو اس دن موت نہیں آئے گی جس دن لوگوں کے قلوب مردہ ہو جائیں گے۔

۳۔ اس رات کا سب سے بہترین عمل امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے کہ جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبراس سے مصافحہ کریں تو وہ کبھی اس رات یہ زیارت ترک نہ کرے۔ حضرت کی چھوٹی سی زیارت بھی ہے کہ اپنے گھر کی چھت پر جائے اپنے دائیں بائیں نظر کرے پھر اپنا سرآسمان کی طرف بلند کر کے یہ کلمات کہے:

السلام علیک یآاباعبداللہ السلام علیک رحمۃ اللہ وبرکاتہ

سلام ہو آپ پر اے ابوعبداللہ سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں

 کوئی شخص جہاں بھی اور جب بھی امام حسین علیہ السلام کی یہ مختصرزیارت پڑھے تو امید ہے کہ اس کو حج وعمرہ کا ثواب ملے گا

۵۔  یہ دعا پڑھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رات یہ دعا پڑھتے تھے:

   اللھم اقسم لنا من خشیتک مایحول بینناوبین معصیتک ومن طاعتک ماتبلغنابہ رضوانک ومن باسماعناوابصارناوقوتنامآاحییتناواجعلہ الوارث مناواجعل ثارناعلی من ظلمناوانصرناعلی من عاداناولاتجعل مصیبتنافی دینناولاتجعل الدنیا اکبرھمناولامبلغ علمناولاتسلط علینامن لایرحمنا برحمتک یآارحم الرحمین

اے معبود ہمیں اپنے خوف کا اتنا حصہ دے جو ہماری طرف سے تیری نافرمانی کے درمیان رکاوٹ بن جائے اور فرمانبرداری سے اتنا حصہ دے کہ اس سے ہم تیری خوشنودی حاصل کرسکیں اوراتنایقین عطا کر کہ جس کی بدولت دنیا کی تکلیفیں ہمیں سبک معلوم ہو اے معبود! جب تو ہمیں زندہ رکھےہمیں ہمارے کانوں آنکھوں اور قوت سے مستفید فرما اوراس قائم کو ہمارا وارث بنااوران سے بدلہ لینے والا قرار دے جنہوں نے ہم پر ظلم کیا ہمارے دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما اور ہمارے دین میں ہمارے لیے کوئی مصیبت نہ لا اور ہماری ہمت اور ہمارے علم کے لیے دنیا کو بڑا مقصد قرار نہ دے اور ہم پراس شخص کو غالب نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے واسطہ تیری رحمت کا اے سب سے زیادہ رحم والے-

   یہ دعا جامع وکامل ہے پس اسے دیگر اوقات میں بھی پڑھے ۔ جیساکہ عوالی اللئالی میں مذکور ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ یہ دعا ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔

۶۔  وہ صلوة پڑھے جو ہرروز بوقت زوال پڑھتارہا ہے

۷۔  اس رات دعاء کمیل پڑھنے کی بھی روایت ہوئی ہے

۸۔  یہ تسبیحات سومرتبہ پڑھے تاکہ حق تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کردے اور دنیاوآخرت کی حاجات پوری فرمائے:

سبحان اللہ والحمدللہ واللہ اکبرولآالہ الاللہ

اللہ پاک تر ہے اور حمداللہ ہی کی ہے اللہ بزرگتر ہے اور نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے

۹۔ اس رات نمازتہجد کی ہردورکعت کے بعد اور نمازشفع اور وتر کے بعد وہ دعا پڑھے جو شیخ وسید نے نقل فرمائی ہے۔:

۱۰۔  اس رات نماز جعفرطیار بجالائے جیسا کہ شیخ نے امام علی رضاعلیہ السلام سے روایت کی ہے۔


کہیں قرآں کہیں قرآں کی  تلاوت زہرا

کہیں کعبہ کہیں کعبے کی جلالت زہرا

کہیں ایماں کہیں ایماں کی حرارت زہرا

کہیں قدرت کہیں قدرت کی مشیت زہرا

ساری دنیا  تجھے خاتون جناں کہتی ہے

انتہا یہ ہے رسالت تجھے ماں کہتی ہے

تیرے شبر کی اداؤں پہ فدا ہیں الیاس

صبر ایوب سے افضل تیرے شبیر کی پیاس

ہے   وفاؤں کا   پیمبر    تیرا   بیٹا   عباس

اور زینب تیری عظمت کی مکمل عکاس

اہل جنت تیرے آگن کو چمن کہتے ہیں

تیری فضہ کو بھی جبریل بہن کہتے ہیں

دیا کعبہ کو بھی سیرت سے اجالا تو نے

بخشا قرآں کو بھی عظمت کا حوالہ تو نے

اپنے بچوں کی طرح دین کو پالا تو نے

اس طرح اپنی کنیزوں کو بھی ڈھالا تونے

اپنے لہجے سے بلاغت کی گرہ کھولتی ہے

تیری فضہ تیرے قرآں کی زباں بولتی ہے

تیرے رشتہ کے لیے عرش سے تارہ اترا

بن کے دولہا تیرے گھر آیا وقار کعبہ

ہر سمندر کو تیرے مہر میں رب نے رکھا

عرش اعظم پہ مشیت نے تیرا عقد پڑھا

ہار آیا نہ کوئی قیمتی زیور  آیا

منھ دکھائی میں تیری سورۂ کوثر آیا

لے لیے خلد میں آدم سے لباس جنت

تیرے شہزادوں کی رضوان نے کی ہے خدمت

تھے وہ آدم کہ ہوئی خاک سے ان کی خلقت

عرش سے لائے   تیرا  نور نبی رحمت

مرتبے تیرے رسولوں سے بڑے ہیں زہرا

خود محمد تیری     ڈوڑھی پہ کھڑے ہیں زہرا

پوری دنیا میں ہے زہرا کے سوا گھر کس کا

بھوک میں بھی جہاں مسکینوں پہ ہوتی ہو عطا

سب ہوں روزے سے مگر بانٹ دیں سب اپنی غذا

عرش پہ جاکے فرشتوں نے کہا تو ہوگا

عظمتیں سب در زہرا کی بھکاری نکلیں

روٹیاں دہر کے سورے سے بھی بھاری نکلیں

چادر فاطمہ آسان نہیں تیری ثناء

تیرے پیوند سے ترکیب ہوئی کرب و بلا

آیتوں نے تیری غربت کا وہ منظر دیکھا

پاؤں کھل جاتے تھے ڈھکتی تھیں اگر سر زہرا

تو مگر    نور کا   عنوانبھی   تفسیر   بھی  ہے

پنحتن بھی تیرے سایے میں ہیں جبریل بھی ہے

قل کفی ہے تیری چوکھٹ کے شرف کا آغاز

لافتی کو تیرے شوہر  کی شجاعت پہ ہے ناز

ہل اتی  تیرے  قبیلے کیعطا   کا     انداز

انما نے تیری چادر کے تلے کھولا یہ راز

خود خدا بھی کوئی پوشیدہ خزانہ ہوتا

تو نہ ہوتی تونہ  دنیا نہ زمانہ ہوتا

یہ زمیں اور یہ افلاک تیرے صدقے میں

حق نے پانی کو کیا پاک تیرے صدقے میں

عرش کو چھونے لگی خاک تیرے صدقے میں

خود ملک لے گیے خوراک تیرے صدقے میں

تیری تخلیق بھی صد نازش رب ہے زہرا

تو محمد کے تعارف کا سبب ہے زہرا

 


برصغیرکی تقسیم تک برطانوی ہند کا علاقہ برٹش پارلیمنٹ کے پاس کردہ ایکٹ 1935ء کےتحت چلایا جارہا تھا، جس کا براہ راست اطلاق ہندوستانی ریاستوں پر نہیں ہوتا تھا،جس میں ریاست جموں وکشمیر بھی شامل ہے، لیکن ان ریاستوں کے امور خارجہ، بیرونی دفاعاور مواصلات برطانوعی حکومت کے تحت ہی تھے۔ ان ریاستوں کے لئے مرکزی پارلیمنٹ میںنشستیں بھی مقرر تھیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے لئے سل آف سٹیٹ میں تین جبکہقانون ساز اسمبلی میں چار نشستیں تھیں۔ آزادئ ہند کے قانون 1947ء کے تحت قائم ہونےوالی دو مملکتوں، ہندوستان اور پاکستان کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنا آئینبنانے تک 1935ء کے ایکٹ کو مناسب ترامیم کے تحت اپنا سکتے ہیں ۔ اسایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت ریاستوں کے والیوں کو مقرر کردہ اصولوں کے تحت دو میں سےکسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، چنانچہ حالات کے جبر کے تحت مہاراجہکشمیر نے خلاف مسلمہ اصولوں کے امور خارجہ ، دفاع ، مواصلات اور ان سے منسلکمعاملات کی حد تک ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا جو گورنر جنرل ہند لارڈ ماونٹ بیٹننے اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ جب ریاست میں امن بحال ہوگا، تو ریاست کے مستقبلکا فیصلہ عوام رائے شماری کے ذریعہ کریں گے، اسی اصول کا اعادہ سلامتی سل نےاپنی متعدد قرار دادوں کے تحت بھی کیا، جو ابھی تک تشنۂ تکمیل ہیں ۔

ہندوستانکی آئین ساز اسمبلی بننے پر کشمیر کے نمائندے بھی اس میں شامل ہوئے، جن کے کہنے پرہندوستان کے آئین میں کافی بحث و تمحیص کے بعد دفعہ 370 کو شامل کیا گیا،جس کے تحت ریاست کی اپنی آئین ساز اسمبلی کے قیام کو تسلیم کیا گیا ، جس کو یہاختیار دیا گیا کہ اس کو ریاستی حکومت کے مشورے یا منظوری سے ہندوستانی آئین اورقوانین کے نافذ کئے گئے ان حصوں کے منظور یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار حاصل ہوگا،جو دفعہ 370 کے تحت کشمیر میں نافذ کئے گئے ہوں ۔اس دفعہ کے تحت اس بات کا بھیخصوصی طور اندراج کیا گیا کہ ہندوستانی آئین اور قوانین کے وہ حصے جو الحاق نامہسے مطابقت رکھتے ہیں کا اطلاق صدر ہندوستان ریاستی حکومت کے مشورے اور دیگر دفعاتکا اطلاق ریاستی حکومت کی پیشگی منظوری سے کر سکیں گے۔چنانچہ جب 26 جنوری 1950ء کوہندوستان کے آئین کا نفاذ ہوا، اسی روز صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ آئین کی دفعہ 1کا کشمیر پر اطلاق کیا گیا، جس کے ساتھ ریاست کو ہندوستان کا حصہ بنایا گیا اورساتھ ہی ہندوستانی آئین کی ان دفعات اور قوانین کا بھی اطلاق ہوا جو دفاع، امورخارجہ اور مواصلات سے متعلق تھیں۔ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا الیکشن 1951ء میںمنعقد ہوا جو اپنی پانچ سالہ مدت 1956ء میں مکمل کرکے تحلیل ہوگئی۔ اس عرصہ کےدورا ن ہندوستانی آئین اور قوانین نافذ کئے گئے، جن حصوں کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی وہ تو اس دفعہ کی روح کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی سب جماعتوں نے تسلیم کئے۔ان ہی میں سے 1954ء میں نافذ کئے گئے بے شمار قوانین و آئینی دفعات کے ساتھ دفعہ35Aبھیشامل ہے۔آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد جتنے ہندوستانی قوانین کا اطلاق کشمیر میںکیا گیاہے وہ متنازعہ الحاق نامہ اور ہندوستانی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے،اس وقتتک ہندوستانی آئین کی 395 دفعات میں سے 260 اور 97 مرکزی اختیارات کی انٹریز میںسے 95 کا اطلاق کشمیر میں کیا جا چکا ہے دفعہ 370 کا خول باقی ہے، روح ختم ہو گئیہے۔

جہاںتک دفعہ 35Aکاتعلق ہے، یہ مہاراجہ کشمیر کے اس قانون کو آئینی تحفظ دیتا ہے، جس کو ریاستیباشندہ قوانین کہتے ہیں، جن کا اطلاق 1927ء سے 1932ء تک کیا گیا ہے۔ ان قوانین کےتحت ریاست کی وحدت، آبادی کے تناسب اور مہاراجہ گلاب سنگھ کی حکومت کے وقت سےریاست میں آباد لوگوں کے چند ی ، مالی اور ذاتی حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے، تاکہہندوستان کے باقی حصوں سے آکر آباد ہونے والے لوگ ریاستی باشندوں کے حقوق اورآبادی کا تناسب نہ بگاڑ دیں۔ ان قوانین کے تحت ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کیخرید و فروخت صرف ریاستی باشندوں کے درمیان ہی ہو سکے گی، ریاست میں ملا زمتین،فنی تعلیم، طلباء کے وظائف، سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ صرف ریاستی باشندوں کا حقہوگا ۔بھارت کی ساری جماعتیں دفعہ 35A اور اس قانون کےخلاف ہیں، لیکن پارلیمنٹ کے ذریعہ منسوخ کرانا ان کے بس میں نہیں، کیونکہ دفعہ 370کی ترمیم ہندوستانی پارلیمنٹ بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ اس پر پابندی ہے اور یہ دفعہآئین کی بنیادی ڈھانچے کا حصہ اور ہندوستان اور کشمیر کے درمیان واحد رشتہ ہے۔ ابہندوستانی اسٹیبلشمنٹ، BJP وغیرہ کی اعانت سے ہندوستانی سپریم کورٹ میںدفعہ 35Aکوہندودستانی آئین سے متصادم قرار دیکر منسوخ کرانے کے لئے کئی رٹ پٹیشنز دائر کرائیگئی ہیں، جن میں ہندوستانی حکومت غیر جانبدار فریق کے طور تماشا دیکھ رہی ہے،حالانکہ اس کو آئین کا دفاع کرنا چاہئے تھا، جس کی وجہ سے یہ غالب امکان ہے کہ یہعدلیہ انتظامیہ کی ملی بھگت ہے،اگر یہ دفعہ کالعدم قرار دی گئی تو کشمیر وادی اورریاست بھر کی سر کاری زمین میں کشمیر میں رہائش پذیر غیر ریاستی باشندوں اورہندوستان کے بے گھر لوگوں کو الاٹ کی جائیں گی، مسلم اکثریتی علاقوں کی زمینیںہندوستانی ارب پتی خرید کرریاستی باشندون کے حقوق حاصل کر لیں گے۔

ہندوستانیکارخانہ دار کارخانے لگانے کے بہانے سے زمینیں حاصل کرکے ہندوستانی مزدوروں اورماہرین کو وہاں آباد کریں گے، مقامی لوگوں سے شادی بیاہ کرکے آنے والی نسلوں کےلئے را ستہ ہموار کرین گے، ہندو آبادیاں بسا کر سپین اور فلسطین جیسی کیفیت پیداکرکے مکمل خانہ جنگی شروع ہو جائیں گی، مسلم آبادی کے انخلاء اور بے خانماں ہوجانے سے پاکستان پر دباؤ بڑھے گا، جس سے موجود سر حدی کشیدگی جنگ میں بدل جائےگی۔۔۔ان خدشات کے پیش نظر حکو مت پاکستان کو فوری طور عالمی اداروں ، UN اورسلامتی سل سمیت اس کے دیگر اداروں کے علاوہ یورپئین یونین، سارک، G8،امریکہ، برطانیہ، روس، چین ، عرب دنیا اور تمام ایٹمی طاقتوں سے سرکاری طور پررجوع کرنا چاہئے، جو اس کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس کا فوری ادراک کریںایسا نہ ہو کہ پھر وقت نہ ملے۔

 


ہندوستانکے آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہوہ خود اپنے ‘مستقل شہری کی تعریف طے کرے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں مختلف حقوق بھی دئےگئے ہیں جبکہ دفعہ 370 جموں و کشمیر کو کچھ خصوصی حقوق دیتا ہے۔ 1954ء میں بھارتیصدر کے ایک حکم کے بعد آرٹیکل 35 اے کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

آرٹیکل35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا حصہ ہے۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں کشمیر کوخصوصی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میںجموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کاشہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتاہے نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا ہے۔ یہی آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقلشہریت کی ضمانت دیتا ہے۔ اسے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہبھارت کشمیر کے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کر رہا ہے۔

آر ایسایس کے ایک تھنک ٹینک گروپ جموں کشمیر سٹڈی سینٹر نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35 اےکو چیلنج کیا تھا۔ یہ معاملہ اس وقت سے سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور سموار کے دنسپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سنانا ہے۔

آرٹیکل370 کی وجہ سے صرف تین ہی معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس ہیں جن میںسیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیں۔ باقی تمام اختیارات جموں و کشمیر حکومتکے پاس ہیں۔بھارت اب عدالتوں کے ذریعے اس آرٹیکل کو ختم کر کے کشمیریت کی پہچانختم کرنا اور اس متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو لانا چاہتا ہے۔ اس لیے ہم تمامکشمیری بھارت کے اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔

اسآرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں ہی سہی اہمیت ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ قراردیا گیا تھا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کیلیے رائےشماری کا ماحول بنا کر دیا جائے۔

 


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اَلْحَمْدُلِلَّهِعَلی ما اَنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما اَلْهَمَ وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَمِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها وَ سُبُوغِ الاءٍ اَسْداها وَ تَمامِ مِنَنٍاَوْلاها جَمَّ عَنِ الْاِحْصاءِ عَدَدُها وَ نَأى عَنِ الْجَزاءِ اَمَدُها وَ تَفاوَتَعَنِ الْاِدْراكِ اَبَدُها وَ نَدَبَهُمْ لاِسْتِزادَتِها بِالشُّكْرِلاِتِّصالِها وَ اسْتَحْمَدَ اِلَى الْخَلائِقِ بِاِجْزالِها وَ ثَنی بِالنَّدْبِاِلى اَمْثالِها وَ اَشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اِلاَّ اللَّهُوَحْدَهُ لا شَریكَ لَهُ، كَلِمَةٌ جَعَلَ الْاِخْلاصَ تَأْویلَها، وَ ضَمَّنَالْقُلُوبَ مَوْصُولَها، وَ اَنارَ فِی التَّفَكُّرِ مَعْقُولَها، الْمُمْتَنِعُعَنِ الْاَبْصارِ رُؤْیَتُهُ، وَ مِنَ الْاَلْسُنِ صِفَتُهُ، وَ مِنَ الْاَوْهامِكَیْفِیَّتُهُ. اِبْتَدَعَ الْاَشْیاءَ لا مِنْ شَىْ‏ءٍ كانَ قَبْلَها، وَاَنْشَاَها بِلاَاحْتِذاءِ اَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَها، كَوَّنَها بِقُدْرَتِهِ وَذَرَأَها بِمَشِیَّتِهِ، مِنْ غَیْرِ حاجَةٍ مِنْهُ اِلى تَكْوینِها، وَ لافائِدَةٍ لَهُ فی تَصْویرِها، اِلاَّ تَثْبیتاً لِحِكْمَتِهِ وَ تَنْبیهاً عَلیطاعَتِهِ، وَ اِظْهاراً لِقُدْرَتِهِ وَ تَعَبُّداً لِبَرِیَّتِهِ، وَ اِعْزازاًلِدَعْوَتِهِ، ثُمَّ جَعَلَ الثَّوابَ عَلی طاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقابَ عَلیمَعْصِیَتِهِ، ذِیادَةً لِعِبادِهِ مِنْ نِقْمَتِهِ وَ حِیاشَةً لَهُمْ اِلىجَنَّتِهِ.  وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبی‏مُحَمَّداً عَبْدُهُوَ رَسُولُهُ، اِخْتارَهُ قَبْلَ اَنْ اَرْسَلَهُ، وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْاِجْتَباهُ، و اصْطَفاهُ قَبْلَ اَنْ اِبْتَعَثَهُ، اِذ الْخَلائِقُ بِالْغَیْبِمَكْنُونَةٌ، وَ بِسَتْرِ الْاَهاویلِ مَصُونَةٌ، وَ بِنِهایَةِ الْعَدَمِمَقْرُونَةٌ، عِلْماً مِنَ اللَّهِ تَعالی بِمائِلِ الْاُمُورِ، وَ اِحاطَةًبِحَوادِثِ الدُّهُورِ، وَ مَعْرِفَةً بِمَواقِعِ الْاُمُورِ. اِبْتَعَثَهُ اللَّهُ اِتْماماً لِاَمْرِهِ،وَ عَزیمَةً عَلى اِمْضاءِ حُكْمِهِ، وَ اِنْفاذاً لِمَقادیرِ رَحْمَتِهِ، فَرَأَىالْاُمَمَ فِرَقاً فی اَدْیانِها، عُكَّفاً عَلی نیرانِها، عابِدَةً لِاَوْثانِها،مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها. فَاَنارَ اللَّهُ بِاَبی‏مُحَمَّدٍ صَلَّىاللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ ظُلَمَها، وَ كَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها، وَ جَلىعَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها، وَ قامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدایَةِ، فَاَنْقَذَهُمْمِنَ الْغِوایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعِمایَةِ، وَ هَداهُمْ اِلَى الدّینِالْقَویمِ، وَ دَعاهُمْ اِلَى الطَّریقِ الْمُسْتَقیمِ. ثُمَّ قَبَضَهُ اللَّهُاِلَیْهِ قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اخْتِیارٍ، وَ رَغْبَةٍ وَ ایثارٍ، فَمُحَمَّدٌصَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ مِنْ تَعَبِ هذِهِ الدَّارِ فی راحَةٍ، قَدْحُفَّ بِالْمَلائِكَةِ الْاَبْرارِ وَ رِضْوانِ الرَّبِّ الْغَفَّارِ، وَمُجاوَرَةِ الْمَلِكِ الْجَبَّارِ، صَلَّى اللَّهُ عَلی أَبی نَبِیِّهِ وَاَمینِهِ وَ خِیَرَتِهِ مِنَ الْخَلْقِ وَ صَفِیِّهِ، وَ السَّلامُ عَلَیْهِ وَرَحْمَةُاللَّهِ وَ بَرَكاتُهُ.  ثم التفت الى اهلالمجلس و قالت: اَنْتُمْ عِبادَ اللَّهِ نُصُبُ اَمْرِهِ وَ نَهْیِهِ، وَ حَمَلَةُدینِهِ وَ وَحْیِهِ، وَ اُمَناءُ اللَّهِ عَلى اَنْفُسِكُمْ، وَ بُلَغاؤُهُ اِلَىالْاُمَمِ، زَعیمُ حَقٍّ لَهُ فیكُمْ  وَ عَهْدٍقَدَّمَهُ اِلَیْكُمْ، وَ بَقِیَّةٍ اِسْتَخْلَفَها عَلَیْكُمْ:كِتابُاللَّهِ النَّاطِقُ وَ الْقُرْانُ الصَّادِقُ، و النُّورُ السَّاطِعُ وَ الضِّیاءُاللاَّمِعُ، بَیِّنَةً بَصائِرُهُ، مُنْكَشِفَةً سَرائِرُهُ، مُنْجَلِیَةًظَواهِرُهُ، مُغْتَبِطَةً بِهِ اَشْیاعُهُ، قائِداً اِلَى الرِّضْوانِاِتِّباعُهُ، مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اسْتِماعُهُ. بِهِ تُنالُ حُجَجُ اللَّهِالْمُنَوَّرَةُ، وَ عَزائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ، وَ مَحارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ، وَبَیِّناتُهُ الْجالِیَةُ، وَ بَراهینُهُ الْكافِیَةُ، وَ فَضائِلُهُالْمَنْدُوبَةُ، وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ، وَ شَرائِعُهُ الْمَكْتُوبَةُفَجَعَلَاللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاًلَكُمْ عَنِ الْكِبْرِ، وَ اَّكاةَ تَزْكِیَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِیالرِّزْقِ، وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ،وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ، وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ، وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ، وَ الصَّبْرَمَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ. وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةًلِلْعامَّةِ، وَ بِرَّ الْوالِدَیْنِ وِقایَةً مِنَ السَّخَطِ، وَ صِلَةَالْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ، وَ الْقِصاصَ حِقْناًلِلدِّماءِ، وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ، وَ تَوْفِیَةَالْمَكائیلِ وَ الْمَوازینِ تَغْییراً لِلْبَخْسِوَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِالْخَمْرِ تَنْزیهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِاللَّعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ایجاباً لِلْعِصْمَةِ، وَ حَرَّمَ اللَّهُالشِّرْكَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبوُبِیَّةِ. فَاتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ،وَ لا تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اَطیعُوا اللَّهَ فیمااَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنَّهُ اِنَّما یَخْشَی اللَّهَ مِنْعِبادِهِ الْعُلَماءُ. ثم قالت: اَیُّهَا النَّاسُ! اِعْلَمُوا اَنّی فاطِمَةُ وَاَبی‏مُحَمَّدٌ، اَقُولُ عَوْداً وَ بَدْءاً، وَ لا اَقُولُ ما اَقُولُ غَلَطاً،وَ لا اَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطاً، لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْعَزیزٌ عَلَیْهِ ما عَنِتُّمْ حَریصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنینَ رَؤُوفٌ رَحیمٌ.فَاِنْ تَعْزُوهُ وَتَعْرِفُوهُ تَجِدُوهُ اَبی دُونَ نِسائِكُمْ،وَ اَخَا ابْنِعَمّی دُونَ رِجالِكُمْ، وَ لَنِعْمَ الْمَعْزِىُّ اِلَیْهِ صَلَّى اللَّهُعَلَیْهِ وَ الِهِ. فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صادِعاًبِالنَّذارَةِ، مائِلاً عَنْ مَدْرَجَةِ الْمُشْرِكینَ، ضارِباً ثَبَجَهُمْ،اخِذاً بِاَكْظامِهِمْ، داعِیاً اِلى سَبیلِ رَبِّهِ بِالْحِكْمَةِ والْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ، یَجُفُّ الْاَصْنامَ وَ یَنْكُثُ الْهامَّ، حَتَّىانْهَزَمَ الْجَمْعُ وَ وَ لَّوُا الدُّبُرَ حَتَّى تَفَرََّىاللَّیْلُ عَنْ صُبْحِهِ، وَ اَسْفَرَ الْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ، و نَطَقَزَعیمُ‏الدّینِ، وَ خَرَسَتْ شَقاشِقُ الشَّیاطینِ، وَ طاحَ وَ شیظُ النِّفاقِ، وَانْحَلَّتْ عُقَدُ الْكُفْرِ وَ الشَّقاقِ، وَ فُهْتُمْ بِكَلِمَةِ الْاِخْلاصِ فینَفَرٍ مِنَ الْبیضِ الْخِماصِ. وَ كُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ،مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَمَوْطِی‏ءَ الْاَقْدامِ، تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ، وَ تَقْتاتُونَ الْقِدَّ،اَذِلَّةً خاسِئینَ، تَخافُونَ اَنْ یَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِكُمْ،فَاَنْقَذَكُمُ اللَّهُ تَبارَكَ وَ تَعالی بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِوَ الِهِ بَعْدَ اللَّتَیَّا وَ الَّتی، وَ بَعْدَ اَنْ مُنِیَ بِبُهَمِالرِّجالِ، وَ ذُؤْبانِ الْعَرَبِ، وَ مَرَدَةِ اَهْلِ الْكِتابِ. كُلَّمااَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ اَطْفَأَهَا اللَّهُ، اَوْ نَجَمَ قَرْنُالشَّیْطانِ، اَوْ فَغَرَتْ فاغِرَةٌ مِنَ الْمُشْرِكینَ، قَذَفَ اَخاهُ فیلَهَواتِها، فَلا یَنْكَفِی‏ءُ حَتَّى یَطَأَ جِناحَها بِأَخْمَصِهِ، وَ یَخْمِدَلَهَبَها بِسَیْفِهِ، مَكْدُوداً فی ذاتِ اللَّهِ، مُجْتَهِداً فی اَمْرِ اللَّهِ،قَریباً مِنْ رَسُولِ‏اللَّهِ، سَیِّداً فی اَوْلِیاءِ اللَّهِ، مُشَمِّراًناصِحاً مُجِدّاً كادِحاً، لا تَأْخُذُهُ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمٍ. وَاَنْتُمَ فی رَفاهِیَّةٍ مِنَ الْعَیْشِ، و ادِعُونَ فاكِهُونَ آمِنُونَ،تَتَرَبَّصُونَ بِنَا الدَّوائِرَ، وَ تَتَوَكَّفُونَ الْاَخْبارَ، وَ تَنْكُصُونَعِنْدَ النِّزالِ، وَ تَفِرُّونَ مِنَ الْقِتالِفَلَمَّا اِختارَاللَّهُ لِنَبِیِّهِ دارَ اَنْبِیائِهِ وَ مَأْوى اَصْفِیائِهِ، ظَهَرَ فیكُمْحَسْكَةُ النِّفاقِ، وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدّینِ، وَ نَطَقَ كاظِمُ الْغاوینَ، وَنَبَغَ خامِلُ الْاَقَلّینَ، وَ هَدَرَ فَنیقُ الْمُبْطِلینَ، فَخَطَرَ فیعَرَصاتِكُمْ، وَ اَطْلَعَ الشَّیْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ، هاتِفاً بِكُمْ،فَأَلْفاكُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجیبینَ، وَ لِلْغِرَّةِ فیهِ مُلاحِظینَ، ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْفَوَجَدَكُمْ خِفافاً، وَ اَحْمَشَكُمْ فَاَلْفاكُمْ غِضاباً، فَوَسَمْتُمْ غَیْرَاِبِلِكُمْ، وَ وَرَدْتُمْ غَیْرَ مَشْرَبِكُمْ. هذا، وَ الْعَهْدُ قَریبٌ،وَالْكَلْمُ رَحیبٌ، وَ الْجُرْحُ لَمَّا یَنْدَمِلُ، وَ الرَّسُولُ لَمَّایُقْبَرُ، اِبْتِداراً زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ، اَلا فِی الْفِتْنَةِسَقَطُوا، وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْكافِرینَ. فَهَیْهاتَ مِنْكُمْ، وَكَیْفَ بِكُمْ، وَ اَنَّى تُؤْفَكُونَ، وَ كِتابُ اللَّهِ بَیْنَ اَظْهُرِكُمْ،اُمُورُهُ ظاهِرَةٌ، وَ اَحْكامُهُ زاهِرَةٌ، وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ، وزَواجِرُهُ لائِحَةٌ، وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ، وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَظُهُورِكُمْ، أَرَغْبَةً عَنْهُ تُریدُونَ؟ اَمْ بِغَیْرِهِ تَحْكُمُونَ؟ بِئْسَلِلظَّالمینَ بَدَلاً، وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلامِ دیناً فَلَنْ یُقْبَلَمِنْهُ، وَ هُوَ فِی الْاخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینِثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا اِلىرَیْثَ اَنْ تَسْكُنَ نَفْرَتَها، وَ یَسْلَسَ قِیادَها،ثُمَّ اَخَذْتُمْ تُورُونَوَ قْدَتَها، وَ تُهَیِّجُونَ جَمْرَتَها، وَ تَسْتَجیبُونَ لِهِتافِ الشَّیْطانِالْغَوِىِّ، وَ اِطْفاءِ اَنْوارِالدّینِ الْجَلِیِّ، وَ اِهْمالِ سُنَنِالنَّبِیِّ الصَّفِیِّ، تُسِرُّونَ حَسْواً فِی ارْتِغاءٍ، وَ تَمْشُونَلِاَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ فِی الْخَمَرِ وَ الضَّرَّاءِ، وَ نَصْبِرُ مِنْكُمْ عَلىمِثْلِ حَزِّ الْمَدى، وَ وَخْزِالسنان‏فى‏الحشا. وَ اَنْتُمُ الانَ تَزَْعُمُونَاَنْ لا اِرْثَ لَنا أَفَحُكْمَ الْجاهِلِیَّةِ تَبْغُونَ، وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَاللَّهِ حُكْماً لِقَومٍ یُوقِنُونَ، أَفَلا تَعْلَمُونَ؟ بَلى، قَدْ تَجَلَّىلَكُمْ كَالشَّمْسِ الضَّاحِیَةِ أَنّی اِبْنَتُهُ. اَیُّهَا الْمُسْلِمُونَ!أَاُغْلَبُ عَلى اِرْثی؟ یَابْنَ اَبی‏قُحافَةَ! اَفی كِتابِ اللَّهِ تَرِثُاَباكَ وَ لا اَرِثُ اَبی؟ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً فَرِیّاً، اَفَعَلى عَمْدٍتَرَكْتُمْ كِتابَ اللَّهِ وَ نَبَذْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِكُمْ، إذْ یَقُولُ وَوَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ»  وَ قالَ فیمااقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ زَكَرِیَّا اِذْ قالَ: فَهَبْ لی مِنْ لَدُنْكَ وَلِیّاًیَرِثُنی وَ یَرِثُ مِنْ الِ‏یَعْقُوبَ»، وَ قالَ: وَ اوُلُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی بِبَعْضٍ فی كِتابِاللَّهِ»،  وَ قالَ یُوصیكُمُ اللَّهُ فیاَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ»،  وَ قالَ اِنْ تَرَكَ خَیْراً الْوَصِیَّةَلِلْوالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبَیْنِ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَى الْمُتَّقینَ». (وَزَعَمْتُمْ اَنْ لا حَظْوَةَ لی، وَ لا اَرِثُ مِنْ اَبی، وَ لا رَحِمَ بَیْنَنا،اَفَخَصَّكُمُ اللَّهُ بِایَةٍ اَخْرَجَ اَبی مِنْها؟ اَمْ هَلْ تَقُولُونَ: اِنَّاَهْلَ مِلَّتَیْنِ لا یَتَوارَثانِ؟ اَوَ لَسْتُ اَنَا وَ اَبی مِنْ اَهْلِمِلَّةٍ واحِدَةٍ؟ اَمْ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْانِ وَ عُمُومِهِ مِنْاَبی وَابْنِ عَمّی؟ فَدُونَكَها مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً تَلْقاكَ یَوْمَحَشْرِكَ. فَنِعْمَ الْحَكَمُ اللَّهُ، وَ اَّعیمُ مُحَمَّدٌ، وَ الْمَوْعِدُالْقِیامَةُ، وَ عِنْدَ السَّاعَةِ یَخْسِرُ الْمُبْطِلُونَ، وَ لا یَنْفَعُكُمْاِذْ تَنْدِمُونَ، وَ لِكُلِّ نَبَأٍ مُسْتَقَرٌّ، وَ لَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْیَأْتیهِ عَذابٌ یُخْزیهِ، وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذابٌ مُقیمٌثم رمتبطرفها نحو الانصار، فقالت: یا مَعْشَرَ النَّقیبَةِ وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ وَحَضَنَةَ الْاِسْلامِ! ما هذِهِ الْغَمیزَةُ فی حَقّی وَ السِّنَةُ عَنْ ظُلامَتی؟اَما كانَ رَسُولُ‏اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ اَبی یَقُولُ:اَلْمَرْءُیُحْفَظُ فی وُلْدِهِ»، سَرْعانَ ما اَحْدَثْتُمْ وَ عَجْلانَ ذا اِهالَةٍ، وَلَكُمْ طاقَةٌ بِما اُحاوِلُ، وَ قُوَّةٌ عَلى ما اَطْلُبُ وَ اُزاوِلُ.اَتَقُولُونَ ماتَ مُحَمَّدٌ؟ فَخَطْبٌ جَلیلٌ اِسْتَوْسَعَ وَ هْنُهُ،وَاسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ، وَ انْفَتَقَ رَتْقُهُ، وَ اُظْلِمَتِ الْاَرْضُلِغَیْبَتِهِ، وَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ انْتَثَرَتِ النُّجُومُلِمُصیبَتِهِ، وَ اَكْدَتِ الْامالُ، وَ خَشَعَتِ الْجِبالُ، وَ اُضیعَ الْحَریمُ،وَ اُزیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَماتِهِ. فَتِلْكَ وَاللَّهِ النَّازِلَةُالْكُبْرى وَ الْمُصیبَةُ الْعُظْمى، لامِثْلُها نازِلَةٌ، وَ لا بائِقَةٌعاجِلَةٌ اُعْلِنَ بِها، كِتابُ اللَّهِ جَلَّ ثَناؤُهُ فی اَفْنِیَتِكُمْ، وَ فیمُمْساكُمْ وَ مُصْبِحِكُمْ، یَهْتِفُ فی اَفْنِیَتِكُمْ هُتافاً وَ صُراخاً وَتِلاوَةً وَ اَلْحاناً، وَ لَقَبْلَهُ ما حَلَّ بِاَنْبِیاءِ اللَّهِ وَ رُسُلِهِ،حُكْمٌ فَصْلٌ وَ قَضاءٌ حَتْمٌ. وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْمِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلىاَعْقابِكُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّهَ شَیْئاًوَ سَیَجْزِى اللَّهُ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرینَ». ایهاًبَنی‏قیلَةَ! ءَ اُهْضَمُ تُراثَ اَبی وَ اَنْتُمْ بِمَرْأى مِنّی وَ مَسْمَعٍ وَمُنْتَدى وَ مَجْمَعٍ، تَلْبَسُكُمُ الدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُكُمُ الْخُبْرَةُ، وَاَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ وَ الْعُدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْقُوَّةِ، وَعِنْدَكُمُ السِّلاحُ وَ الْجُنَّةُ، تُوافیكُمُ الدَّعْوَةُ فَلا تُجیبُونَ، وَتَأْتیكُمُ الصَّرْخَةُ فَلا تُغیثُونَ، وَ اَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْكِفاحِ،مَعْرُوفُونَ بِالْخَیْرِ وَ الصَّلاحِ، وَ النُّخْبَةُ الَّتی انْتُخِبَتْ، وَالْخِیَرَةُ الَّتِی اخْتیرَتْ لَنا اَهْلَ الْبَیْتِ. قاتَلْتُمُ الْعَرَبَ، وَتَحَمَّلْتُمُ الْكَدَّ وَ التَّعَبَ، وَ ناطَحْتُمُ الْاُمَمَ، وَ كافَحْتُمُالْبُهَمَ، لا نَبْرَحُ اَوْ تَبْرَحُونَ، نَأْمُرُكُمْ فَتَأْتَمِرُونَ، حَتَّىاِذا دارَتْ بِنا رَحَى الْاِسْلامِ، وَ دَرَّ حَلَبُ الْاَیَّامِ، وَ خَضَعَتْنُعْرَةُ الشِّرْكِ، وَ سَكَنَتْ فَوْرَةُ الْاِفْكِ، وَ خَمَدَتْ نیرانُالْكُفْرِ، وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ الْهَرَجِ، وَ اسْتَوْسَقَ نِظامُ الدّینِ،فَاَنَّى حِزْتُمْ بَعْدَ الْبَیانِ، وَاَسْرَرْتُمْ بَعْدَ الْاِعْلانِ، وَنَكَصْتُمْ بَعْدَ الْاِقْدامِ، وَاَشْرَكْتُمْ بَعْدَ الْایمانِ؟ بُؤْساًلِقَوْمٍ نَكَثُوا اَیْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ، وَ هَمُّوا بِاِخْراجِالرَّسُولِ وَ هُمْ بَدَؤُكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ، اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُاَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُؤمِنینَ. اَلا، وَ قَدْ أَرى اَنْ قَدْاَخْلَدْتُمْ اِلَى الْخَفْضِ، وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَالْقَبْضِ، وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ، وَ نَجَوْتُمْ بِالضّیقِ مِنَ السَّعَةِ،فَمَجَجْتُمْ ما وَعَبْتُمْ، وَ دَسَعْتُمُ الَّذى تَسَوَّغْتُمْ، فَاِنْتَكْفُرُوا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمیعاً فَاِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّحَمیدٌ. اَلا، وَ قَدْ قُلْتُ ما قُلْتُ هذا عَلى مَعْرِفَةٍ مِنّی بِالْخِذْلَةِالَّتی خامَرْتُكُمْ، وَ الْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْها قُلُوبُكُمْ، وَلكِنَّها فَیْضَةُ النَّفْسِ، وَ نَفْثَةُ الْغَیْظِ، وَ حَوَزُ الْقَناةِ، وَبَثَّةُ الصَّدْرِ، وَ تَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ، فَدُونَكُمُوها فَاحْتَقِبُوهادَبِرَةَ الظَّهْرِ، نَقِبَةَ الْخُفِّ، باقِیَةَ الْعارِ، مَوْسُومَةً بِغَضَبِالْجَبَّارِ وَ شَنارِ الْاَبَدِ، مَوْصُولَةً بِنارِ اللَّهِ الْمُوقَدَةِ الَّتیتَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْئِدَةِ. فَبِعَیْنِ اللَّهِ ما تَفْعَلُونَ، وَ سَیَعْلَمُالَّذینَ ظَلَمُوا اَىَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ، وَ اَنَا اِبْنَةُ نَذیرٍلَكُمْ بَیْنَ یَدَىْ عَذابٌ شَدیدٌ، فَاعْمَلُوا اِنَّا عامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا اِنَّا مُنْتَظِرُونَفأجابها أبوبكرعبداللَّه بن عثمان، و قال: یا بِنْتَ رَسُولِ‏اللَّهِ! لَقَدْ كانَ اَبُوكِبِالْمُؤمِنینَ عَطُوفاً كَریماً، رَؤُوفاً رَحیماً، وَ عَلَى الْكافِرینَ عَذاباًاَلیماً وَ عِقاباً عَظیماً، اِنْ عَزَوْناهُ وَجَدْناهُ اَباكِ دُونَ النِّساءِ،وَ اَخا اِلْفِكِ دُونَ الْاَخِلاَّءِ، اثَرَهُ عَلى كُلِّ حَمیمٍ وَ ساعَدَهُ فیكُلِّ اَمْرٍ جَسیمِ، لا یُحِبُّكُمْ اِلاَّ سَعیدٌ، وَ لا یُبْغِضُكُمْ اِلاَّشَقِیٌّ بَعیدٌ فَاَنْتُمْ عِتْرَةُ رَسُولِ‏اللَّهِالطَّیِّبُونَ، الْخِیَرَةُ الْمُنْتَجَبُونَ، عَلَى الْخَیْرِ اَدِلَّتُنا وَاِلَى الْجَنَّةِ مَسالِكُنا، وَ اَنْتِ یا خِیَرَةَ النِّساءِ وَ ابْنَةَ خَیْرِالْاَنْبِیاءِ، صادِقَةٌ فی قَوْلِكِ، سابِقَةٌ فی وُفُورِ عَقْلِكِ، غَیْرَمَرْدُودَةٍ عَنْ حَقِّكِ، وَ لا مَصْدُودَةٍ عَنْ صِدْقِكِ. وَ اللَّهِ ماعَدَوْتُ رَأْىَ رَسُولِ‏اللَّهِ، وَ لا عَمِلْتُ اِلاَّ بِاِذْنِهِ، وَالرَّائِدُ لا یَكْذِبُ اَهْلَهُ، وَ اِنّی اُشْهِدُ اللَّهَ وَ كَفى بِهِشَهیداً، اَنّی سَمِعْتُ رَسُولَ‏اللَّهِ یَقُولُ: نَحْنُ مَعاشِرَ الْاَنْبِیاءِلا نُوَرِّثُ ذَهَباً وَ لا فِضَّةًّ، وَ لا داراً وَ لا عِقاراً، وَ اِنَّمانُوَرِّثُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ الْعِلْمَ وَ النُّبُوَّةَ، وَ ما كانَلَنا مِنْ طُعْمَةٍ فَلِوَلِیِّ الْاَمْرِ بَعْدَنا اَنْ یَحْكُمَ فیهِ بِحُكْمِهِ». وَقَدْ جَعَلْنا ما حاوَلْتِهِ فِی الْكِراعِ وَ السِّلاحِ، یُقاتِلُ بِهَاالْمُسْلِمُونَ وَ یُجاهِدُونَ الْكُفَّارَ، وَ یُجالِدُونَ الْمَرَدَةَ الْفُجَّارَ،وَ ذلِكَ بِاِجْماعِ الْمُسْلِمینَ، لَمْ اَنْفَرِدْ بِهِ وَحْدى،وَ لَمْاَسْتَبِدْ بِما كانَ الرَّأْىُ عِنْدى، وَ هذِهِ حالی وَ مالی، هِیَ لَكِ وَبَیْنَ یَدَیْكِ، لا تَزْوى عَنْكِ وَ لا نَدَّخِرُ دُونَكِ، وَ اَنَّكِ، وَاَنْتِ سَیِّدَةُ اُمَّةِ اَبیكِ وَ الشَّجَرَةُ الطَّیِّبَةُ لِبَنیكِ، لایُدْفَعُ مالَكِ مِنْ فَضْلِكِ، وَ لا یُوضَعُ فی فَرْعِكِ وَ اَصْلِكِ، حُكْمُكِنافِذٌ فیما مَلَّكَتْ یَداىَ، فَهَلْ تَرَیِنَّ اَنْ اُخالِفَ فی ذاكَ اَباكِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ وَ سَلَّمَ فقالت:سُبْحانَ‏اللَّهِ، ما كانَ اَبی رَسُولُ‏اللَّهِ عَنْ كِتابِ اللَّهِ صادِفاً، وَلا لِاَحْكامِهِ مُخالِفاً، بَلْ كانَ یَتْبَعُ اَثَرَهُ، وَ یَقْفُو سُوَرَهُ،اَفَتَجْمَعُونَ اِلَى الْغَدْرِ اِعْتِلالاً عَلَیْهِ بِاُّورِ، وَ هذا بَعْدَوَفاتِهِ شَبیهٌ بِما بُغِیَ لَهُ مِنَ الْغَوائِلِ فی حَیاتِهِ، هذا كِتابُاللَّهِ حُكْماً عَدْلاً وَ ناطِقاً فَصْلاً، یَقُولُ: یَرِثُنی وَیَرِثُ مِنْ الِ‏یَعْقُوبَ»، وَ یَقُولُ: وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ». بَیَّنَعَزَّ وَ جَلَّ فیما وَزَّعَ مِنَ الْاَقْساطِ، وَ شَرَعَ مِنَ الْفَرائِضِوَالْمیراثِ، وَ اَباحَ مِنْ حَظِّ الذَّكَرانِ وَ الْاِناثِ، ما اَزاحَ بِهِعِلَّةَ الْمُبْطِلینَ وَ اَزالَ التَّظَنّی وَ الشُّبَهاتِ فِی الْغابِرینَ،كَلاَّ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْراً، فَصَبْرٌ جَمیلٌ وَ اللَّهُالْمُسْتَعانُ عَلى ما تَصِفُونَ. فقال أبوبكر: صَدَقَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُوَ صَدَقَتْ اِبْنَتُهُ، مَعْدِنُ الْحِكْمَةِ، وَ مَوْطِنُ الْهُدى وَالرَّحْمَةِ، وَ رُكْنُ الدّینِ، وَ عَیْنُ الْحُجَّةِ، لا اَبْعَدُ صَوابَكِ وَلا اُنْكِرُ خِطابَكِ، هؤُلاءِ الْمُسْلِمُونَ بَیْنی وَ بَیْنَكِ قَلَّدُونی ماتَقَلَّدْتُ، وَ بِاتِّفاقٍ مِنْهُمْ اَخَذْتُ ما اَخَذْتُ، غَیْرَ مَكابِرٍ وَ لامُسْتَبِدٍّ وَ لا مُسْتَأْثِرٍ، وَ هُمْ بِذلِكَ شُهُودٌ. فالتفت فاطمة علیهاالسلام الى النساء، وقالت: مَعاشِرَ الْمُسْلِمینَ الْمُسْرِعَةِ اِلى قیلِ الْباطِلِ،الْمُغْضِیَةِ عَلَى الْفِعْلِ الْقَبیحِ الْخاسِرِ، اَفَلا تَتَدَبَّرُونَالْقُرْانَ اَمْ‏عَلی قُلُوبٍ اَقْفالُها، كَلاَّ بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِكُمْ مااَسَأْتُمْ مِنْ اَعْمالِكُمْ، فَاَخَذَ بِسَمْعِكُمْ وَ اَبْصارِكُمْ، وَلَبِئْسَ ما تَأَوَّلْتُمْ، وَ ساءَ ما بِهِ اَشَرْتُمْ، وَ شَرَّ ما مِنْهُاِعْتَضْتُمْ، لَتَجِدَنَّ وَ اللَّهِ مَحْمِلَهُ ثَقیلاً، وَ غِبَّهُ وَ بیلاً،اِذا كُشِفَ لَكُمُ الْغِطاءُ، وَ بانَ ما وَرائَهُ الضَّرَّاءُ، وَ بَدا لَكُمْمِنْ رَبِّكُمْ ما لَمْ تَكُونُوا تَحْتَسِبُونَ، وَ خَسِرَ هُنالِكَالْمُبْطِلُونَ

ثم عطفت على قبر النبیّ صلى اللَّه علیه وآله، و قالت: 

قَدْكانَبَعْدَكَ اَنْباءٌ وَهَنْبَثَةٌ                     -  لَوْ كُنْتَ شاهِدَها لَمْ تَكْثِرِ الْخُطَبُ

اِنَّافَقَدْ ناكَ فَقْدَ الْاَرْضِ وابِلَها                             وَ اخْتَلَّ قَوْمُكَ فَاشْهَدْهُمْ وَ لاتَغِبُ

وَكُلُّ اَهْلٍ لَهُ قُرْبی وَ مَنْزِلَةٌ -                               عِنْدَ الْاِلهِعَلَی الْاَدْنَیْنِ مُقْتَرِبُ

اَبْدَتْرِجالٌ لَنا نَجْوى صُدُورِهِمُ                  - لمَّا مَضَیْتَ وَ حالَتْدُونَكَ التُّرَبُ

تَجَهَّمَتْنارِجالٌ وَ اسْتُخِفَّ بِنا                               - لَمَّا فُقِدْتَوَ كُلُّ الْاِرْثِ مُغْتَصَبُ

وَكُنْتَ بَدْراً وَ نُوراً یُسْتَضاءُ بِهِ-                            عَلَیْكَ تُنْزِلُمِنْ ذِى‏الْعِزَّةِ الْكُتُبُ

وَكانَ جِبْریلُ بِالْایاتِ یُؤْنِسُنا-                         فَقَدْ فُقِدْتَ وَكُلُّ الْخَیْرِ مُحْتَجَبُ

فَلَیْتَقَبْلَكَ كانَ الْمَوْتُ صادِفُنا-                          لَمَّا مَضَیْتَ وَحالَتْ دُونَكَ الْكُتُبُ

ثم انكفأت علیهاالسلام و امیرالمؤمنین علیه‏السلامیتوقّع رجوعها الیه و یتطلّع طلوعها علیهفلمّا استقرّت بها الدار، قالتلامیرالمؤمنین علیهماالسلام: یَابْنَ اَبی‏طالِبٍ! اِشْتَمَلْتَ شِمْلَةَالْجَنینِ، وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ الظَّنینِ، نَقَضْتَ قادِمَةَ الْاَجْدَلِ، فَخانَكَریشُ الْاَعْزَلِ. هذا اِبْنُ اَبی‏قُحافَةَ یَبْتَزُّنی نِحْلَةَ اَبی وَبُلْغَةَ ابْنَىَّ! لَقَدْ اَجْهَرَ فی خِصامی وَ اَلْفَیْتُهُ اَلَدَّ فی كَلامیحَتَّى حَبَسَتْنی قیلَةُ نَصْرَها وَ الْمُهاجِرَةُ وَصْلَها، وَ غَضَّتِالْجَماعَةُ دُونی طَرْفَها، فَلا دافِعَ وَ لا مانِعَ، خَرَجْتُ كاظِمَةً، وَعُدْتُ راغِمَةً. اَضْرَعْتَ خَدَّكَ یَوْمَ اَضَعْتَ حَدَّكَ، اِفْتَرَسْتَالذِّئابَ وَ افْتَرَشت التُّرابَ، ما كَفَفْتَ قائِلاً وَ لا اَغْنَیْتَ باطلاًوَ لا خِیارَ لی، لَیْتَنی مِتُّ قَبْلَ هَنیئَتی وَ دُونَ ذَلَّتی، عَذیرِىَاللَّهُ مِنْكَ عادِیاً وَ مِنْكَ حامِیاً.وَیْلاىَ فی كُلِّ شارِقٍ، وَیْلاىَ فیكُلِّ غارِبٍ، ماتَ الْعَمَدُ وَ وَهَنَ الْعَضُدُ، شَكْواىَ اِلى اَبی وَعَدْواىَ اِلى رَبّی، اَللَّهُمَّ اِنَّكَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَ حَوْلاً،وَ اَشَدُّ بَأْساً وَ تَنْكیلاً. فقال امیرالمؤمنین علیه‏السلام: لا وَیْلَلَكِ، بَلِ الْوَیْلُ لِشانِئِكِ، نَهْنِهْنی عَنْ وُجْدِكِ، یا اِبْنَةَالصَّفْوَةِ وَ بَقِیَّةَ النُّبُوَّةِ، فَما وَنَیْتُ عَنْ دینی، وَ لااَخْطَأْتُ مَقْدُورى، فَاِنْ كُنْتِ تُریدینَ الْبُلْغَةَ فَرِزْقُكِ مَضْمُونٌ،وَ كَفیلُكِ مَأْمُونٌ، وَ ما اُعِدَّ لَكِ اَفْضَلُ مِمَّا قُطِعَ عَنْكِ،فَاحْتَسِبِی اللَّهَ.  فقالت:حَسْبِیَ اللَّهُ، و أمسكت


                                                   سیدۃالنسا ءالعالمین بی بی فاطمہاھرا علیہاالسلام کا خطبہ

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجھے اپنی بےشمار اوربے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی ہوں اس کی ان توفیقات پرجواس نےمجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی ہوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھانھیں، اورنہ ھی ان کاکوئی بدلاہوسکتاھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سےباھر ھے، خدا چاھتا ھے کہ ھم اسکی نعمتوںکی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کااضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ھے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کانزول فرمائے ۔ میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی ہوں،وہ وحدہ لا شریک ھے، ایسیوحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ھے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے ہو تا ھےاوراس کے حقیقی معنی پر غور وفکر کرنے سے دل ودماغ روشن ہوتے ھیں۔ وہ خدا جس کوآنکھ کے ذریعہ دیکھانھیںجاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نھیں کی جاسکتی ،جو وھم وگمان میں بھی نھیں آسکتا۔ وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اسسے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ھے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشیت سے اسکائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت ہو، یا اسے اس کا کوئیفائدہ پہونچتا ہو۔ بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کوثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے،بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟ اس نے اپنیاطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ھے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ،اورجنت کی طرف لے جائے۔

میںگواہی دیتی ہوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد،اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ان کوپیغمبری پر مبعوث کرنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کانام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میںپنھاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں،چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضاوقدر سے مطلع ہے۔

خدانے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگےبڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پہونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت ازل کرے۔ (جب آپ مبعوث ہوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے ہوئے تھے، کفر و الحادکی آگ میں جل رھے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررھے تھے اورخدا کی شناخت کے بعدبھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےوجود مقدس سے تاریکیاںچھٹ گئیں جھالت ونادانیاںدلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سرگردانیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں، میرے باپ نے لوگوںکی ھدایت کی اور ان کوگمراھیاور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلامکی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔

اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانیسے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ھے اوراس وقتفرشتوںاور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزاررھا ھے ،خدا کی طرف سےمیرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت ہو۔

اسکے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: تم خدا کے بندے ،امرونھیکے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار ہو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو، تم ھی لوگوںکے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پہونچ رھا ھے،تم نے گویا یہ سمجھلیا ھے کہ تم ان صفات کے حقدارہو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھدوپیمان ھے؟ حالانکہ ھم بقیة اللهاور قرآن ناطق ھیںوہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتاہوا نور ھے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاھر ھےں، اس کے پیرو کارسعادتمندھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوںنناوسیلہٴ نجات ھے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتیھیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل ہو سکتےھیں۔ خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا،نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کووسعت رزق اورتزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کواخلاصکے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت ظم زندگی اور دلوں کےآپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ھے۔ اورھماری اطاعت کو نظم ملت اور ھماری امامتکوتفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،اورصبر کو ثواب کے لئے مددگارمقرر کیا،امر بالمعروف و نھی عن المنکرعمومی مصلحت کےلئے اور والدین کےساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کاذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موتکاوسیلہ قراردیا ،قصاص اس لئے رکھاتاکہ کسی احق قتل نہ کرونیزنذر کوپوراکرنےکوگناھگاروںکی بخشش کاسبب قرار دیااورپلیدی اورپست حرکتوںسے محفوظ رہنے کے لئےشراب خوری کوحرام کیا، کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا،چوری نہ کرنے کوعزت وعفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کوحرام قرار دیاتاکہ اس کی ربو بیت کے بارے میں اخلاص باقی رھے۔ ”اے لوگو! تقویٰ وپرھیز گاری کواپناؤ اور تمھاراخاتمہ اسلام پر ہو اوراسلام کی حفاظت کروخدا کے اوامرونواھی کی اطاعت کرو۔”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ھیں ۔

اسکے بعد جناب فاطمہ زھرا نے فرمایا: اے لوگو! جان لومیں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پہلیاور آخری بات یہی ہے ،جو میں کہہ رہی ہوں وہ غلط نہیں ہے اور جو میں انجام دیتیہوں بے ہودہ نہیں ہے۔
خدانے تم ھی میں سے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سےانھیںتکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوزوغفورورحیم تھے۔وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ،میرے شوھر کےچچازاد بھائی تھے نہ کہ تمھارے مردوںکے بھائی،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ہونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ھے۔ انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کیاور لوگوں کوعذاب الٰھی سے ڈرایا، اورشرک پھیلانے والوں کا سد باب کیاان کیگردنوںپرشمشیرعدالت رکھی اورحق دبانے والوں کا  گلادبادیاتاکہ شرک سے پرھیز کریں اور توحید وعدالت کوقبول کریں۔

اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی،بتوں کوتوڑااور ان کے سروں کوکچل دیا،کفارنے شکست کھائی اورمنھ پھیر کر بھاگے ،کفر کیتاریکیاں دور ہوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح ہوگیا،دین کے رھبر کی زبان گویاہوئیاورشیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے ، نفاق کے پیروکار ھلاکت و سر گردانی کے قعرعمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ (اور تماھلبیت کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو ہوگئے،درحالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میں کھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئےپانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئےشعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھاجو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ اہنمائی چاھتا ھے۔ تم قبائل کے نحس پنجوںکی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھےاور حیوانوںکو کھال سمیت کھا لیتے تھے،اور دوسروں کے نزدیک ذلیل وخوارتھےاوراردگردکے قبائل سے ھمیشہ ھراساںتھے۔ یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوارمحمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں درپیش تھی ،تمکو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نماافراد اوراھل کتاب کے سرکشوںسےواسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تھے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میںسے کوئی بھی زبان کھولتاتھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سےمقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابودکردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہکردیتے میدان جنگ سے واپس نہ ہوتے تھے۔ (وہ علی ) جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمامسختیوںکاتحمل کرتے رھے اورخدا کی راہ میں جھاد کرتے رھے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیکترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کےلئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میںآرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتےتھے،(اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظررھتے تھے اوردشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتےتھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرارہوجایا کرتے تھے ۔ جب خدا نے اپنے رسولوں اورپیغمبروںکی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاقظاھر ہوگیا،لباس دین کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوںنےسر اٹھالیا، باطل کااونٹ بولنے لگااور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نےاپنا سر کمین گاہ سے باھرنکالااورتمھیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبولکرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اورتمحرکت میںآگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک ہوگئے وہ اونٹ جو تم میںسے نھیںتھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھیپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نھیں گزراتھا اور ھمارے زخمدل نھیں بھرے تھے ، زخموں کے شگاف بھرے نھیں تھے ،ابھی پیغمبر (ص)کو دفن بھی نھیںکیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا ”لیکن خبرداررہوکہ تم فتنہ میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروںکا احاطہ کرلیا ھے ۔
افسوس تمھیں کیا ہوگیا ھے اور تم نے سیڈگراختیارکرلی ھے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ھے اوراس کے احکامواضح اوراس کے امرونھی ظاھرھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا،کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاھتے ہو؟یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سےفیصلہ کرنا چاھتے ہو؟  ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ہے۔

 بنت رسولْ سیدہ النسا العالمین جناب فاطمہ اھراعلیہ السلام کا خطبہ فدک

جو شخص اسلام کےعلاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نھیں کیا جائیگا اورآخرت میںایسا شخص سخت گھاٹے میں ہوگا ۔

تمخلافت کے مسئلہ میں اتنا بھی صبرنہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش ہوجائےاوراسکی قیادت آسان ہوجائے(تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو) اسوقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاںخوب آگ پکڑلیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص)کوخاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ،تم ظاھر کچھ کرتے ہو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اوربھرا ہوا ھے۔

میںتمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی ہوں جس طرح کسی پرچھری اورنیزے سے پیٹ میں زخمکردیا جاتا ھے، اور وہ اس پر صبر کرتا ھے ۔

تملوگ گمان کر تے ہو کہ ھمارے لئےو ارث نھیںھے، ؟! ” کیا تم سنت جاھلیت کو نھیں اپنارھے ہو ؟!!
کیا یہ لوگ (زمانہ) جاھلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیںحالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر ہوگا۔
کیا تم نھیں جا نتے کہ صاحب ارث ھم ھیں، چنانچہ تمپرروزروشن کی طرح واضح ھے کہ میںرسول کی بیٹی ہوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ھے کہمیں اپنے ارث سے محروم رہو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہجمالو۔
اے ابن ابی قحافہ ! کیایہ کتاب خدا میں ھے کہ تم اپنےباپ سے میراث پاؤ ا ورھم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلقمیرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ھے، اور علم وفھم کے با وجود قرآن کے دامن کوچھوڑدیا ، اس کو پس پشت ڈالدیا؟
کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ھے <وارث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داودسے وارث لیا، اورجناب یحیٰ بن زکریاکے بارے میں ارشاد ہوتا ھے کہ انہوں نے دعا کی: بارِ الہٰا ! اپنیرحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث ہو، نیز ارشادہوتا ھے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باھم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں )زیادہ حق دار ھیں۔ اسی طرح حکم ہوتا ھے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سےوصیت کرتا ھے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ھے ۔

نیزخداوندعالم نے ارشاد فرمایا: تم کو حکم دیاجاتا ھے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائےتو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ھیں ان پر یہایک حق ھے۔
کیا تم گمان کرتے ہو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہنھیں ھے اور مجھے ان سے میراث نھیں ملے گی ؟
کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوںسےمخصوص کردیا ھے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ھے ؟یا تم کھتے ہو کہ میرااورمیرے باپ کا دوالگ الگ ملتوں سے تعلق ھے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نھیں لےسکتے۔
آیاتم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدارسے زیادہقرآن کے معنیٰ ومفاھیم ،عموم وخصوص اورمحکم ومتشابھات کوجانتے ہو ؟
تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھارکرلیا ھے اور اس کو آمادہ کرلیاھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رھے گا اور روز قیامتملاقات کریگا ۔

اسروز خدا بھترین حاکم ہوگا اور محمد بھترین زعیم ، ھمارے تمھارے لئے قیامت کا دنمعین ھے وھاںپر تمھارا نقصان اور گھاٹاآشکارہوجائےگا اورپشیمانی اس وقت کوئی فائدہنہ پہونچائے گی،” ھر چیزکے لئے ایک دن معین ھے ۔ ” عنقریب ھی تم جان لوگے کہ عذابالٰھی کتنا رسوا کنندہ ھے ؟اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نھیں۔

انصار سے خطاب

اسکے بعد انصارکی طرف متوجہ ہوئیں اورفرمایا:اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابتکرنے میںکیوںسستی برتتے ہو اور مجھ پر جو ظلم وستم ہورھاھے اس سے کیوںغفلت سے کاملے رھے ہو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میںبھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی ہوتا ھے؟)
تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ھے اور کتنی جلدی ہواوہوس کے شکار ہوگئے! تم اس ظلم کو ختمکرنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔

یہکیا کہہ رھے ہو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام ہوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبتھے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جارھاھے اورخلاء واقع ہو رھا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہو آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک ہوگئی اور شمس وقمر بے رونق ہوگئے، ستارے مدھمپڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلہ آگیااوروہ پاش پاش ہوگئے ھیں ،حرمتوں کاپاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے وقتان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔

خداکی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔

یہاللہ کی کتاب ھے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند ہورھی ھے اور انبیاء علیھمالسلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ھے اور اس کے احکامتغیر ناپذیر ھیں(جیسا کہ ارشاد ہوتا ھے: اورمحمد(ص)صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اسدنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخصدین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پہونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکوجزائے خیردیتاھے ۔

اےفرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ھے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوںجبکہ تم یہ دیکھ رھے ہواور سن رھے ہو اوریھاں حاضربھی ہو اور میری آوازتم تک پہونچبھی رھی ھے اور تم واقعہ سے با خبر بھی ہو، تمھاری تعداد زیادہ ھے، تمھارے پاسطاقت واسلحہ بھی ھے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی ہوں، لیکن تم اس پرلبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن رھے ہو مگر فریاد رسی نھیں کرتے ہو، تم بھادریمیںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ ہو ، تم ھی ھم اھلبیت کے لئے منتخب ہوئے،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی،سورماوٴں سے زورآزمائی کی ، جب ھم قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ھم حکمدیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔

یھاںتک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ ہوئےں، مشرکین کے سر جھکگئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم ہوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش ہوگئے ، شورش اورشوروغل ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا۔

اےگروہ انصار: متحیرہوکر کھاںجارھے ہو ؟ ! حقائق کے معلوم ہونے کے بعد انھیںکیوںچھپاتے ہو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رھے ہو، اورایمان لانے کےبعد مشرک کیوں ہو رھے ہو ؟  بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتےجھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ھے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تمسے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو ،حالانکہ کہاگر تم سچے ایماندار ہو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔

میںدیکھ رھی ہوں کہ تم پستی کی طرف جارھے ہو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنارکردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول ہو،زندگی کے وسیع وعریضمیدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے ہو، جو کچھ تمھارےاندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رہو اگرتم اورروئے زمین پرآباد تمام انسان کافرہوجائیں تو خدا تمھارا محتاج نھیں ھے ۔

اےلوگو! جو کچھ مجھےکہناچاہئے تھا سوکہہ دیا، چونکہ میں جانتی ہوںکہ تم میری مددنھیںکروگے، تم لوگ جومنصوبے بناتے ہو مجھ سے پوشیدہ نھیں ھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہتم پرحجت تمام ہوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جانلو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس”فعل کی رسوائیاںاورذلتیں ھمیشہ تمھارےدامن گیر رھیں گی۔

خدااپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم ہوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ھےبھت جلد ستمگاراپنے کئے ہوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے

اےلوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی ہوں جس نے تمھیں خدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھتم لوگ کرسکتے ہو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیں گے تم بھی منتظر ہو ، ہم بھیمنتظرہیں۔


مہدیموعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یایہ عقیدہ دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے؟
جیسا کہ بعض منکرین مہدویت کاکہنا ہے : عقیدہ مہدویت کیاصل یہودیوں وغیرہ کے عقاید میں ہے جہاںسے مسلمانوں میں سرایت کرگیا ہے ورنہ اسعقیدے کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے ۔
جواب: ہدویت یعنی ایک عالمی نجات دھندہ کا تصور اس وقت سے ہے جب کہ اسلام نہیںآیا تھا اوریہ تصور صرف اسلام میں محدود نہیں ہے ، ہاں اس کی تفصیلی علامتوں کیاسلام نے اس طرح حدبندی کی ہے کہ وہ ان آرزووں کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے ، جودینی تاریخ کی ابتداءہی سے عقیدہ مہدویت سے وابستہ کی گئی ہیں ، جوتاریخ کےمظلوموں اور دبے ہوئے انسانوں کے احساسات کو ابھارنے کے لئے ہے ، اس کی وجہ یہ ہےکہ اسلام نے غیب پرایمان وعقیدے کو واقعیت میں بدل دیا ہے اوراسے مستقبل سے حالمیں پہنچادیا ہے اور مستقبل بعید کے نجات دہندہ کو موجودہ نجات دہندہ پر ایمان میںبدل دیا ہے۔

مختصر یہ کہ عقیدہمہدویت سارے مذاہب وادیان اور ملتوں میں موجود ہے اوروہ ایسے ہی طاقتورغیبیموعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں البتہ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سےپہچانتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ہندوںکے مذہبی رہنما ” شای کی کتاب سے نقل ہوا ہے کہ ” دنیا کا خاتمہ سید خلایق دوجہاں ” کِش [پیامبر اسلام ]ہوگا جس کے نام ستادہ [ موعود] خدا شناس ہے۔
اسی طرح ہندوں کی کتاب” وید میں لکھا ہے ” جب دنیا خراب ہو جائے گی تو ایک بادشاہ جس کا نام ” منصور ہے آخری زمانے میں پیدا ہوگا اورعالم بشریت کا رہبر وپیشوا ہوگا۔اوریہ وہ ہستی ہےجو تمام دنیا والوں کو اپنے دین پر لائے گا۔
اورہندوں ہی کی ایک اورکتاب ” باسک میں لکھا ہے ” آخری زمانے میں دین ومذہب کی قیادت ایک عادل بادشاہپر ختم ہوگی جو جن وانس اور فرشتوں کا پیشوا ہوگا، اسی طرح ” کتاب پاتیکل میں آیاہے جب دنیا اپنے آخری زمان کو پہنچے تو یہ پرانی دنیا نئی دنیامیں تبدیل ہوجائے گیاوراس کے مالک دو پیشواوں ” ناموس آخرامان [ حضرت محمد مصطفی اور ” پشن[ علی بنابی طالب ] کے فرزندہوں گے جس کا نام راہنما ہوگا۔
اوریہی ہے جیسے زردتشمذہب میں اسے ” سوشیانس یعنی دنیا کو نجات دلانے والا ، یہودی اسے ” سرور میکائلی یا ” ماشع عیسائی اسے ” مسیح موعود اور مسلمان انہیں ” مہدی موعود(عج) کےنام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا۔
اسلام میں اس کی بھرپور طریقے سے شناخت موجود ہے ، جب کہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل شناخت نہیں کرائی ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہاس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگر مذاہب میں بیان ہوئے ہیںوہ اسلام کے مہدی موعود(عج) یعنی امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے فرزند پر منطبقہوتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ ایک غیرمعمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان ومذاہب کا مشترکہ عقیدہ ہےجس کا سرچشمہ وحی ہے اورتمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظارمیں ہیں لیکن اس مطابقت میں اختلاف ہے ۔


ان خصوصیات میں بعض کا تعلق آپ کی ذات ِ مبارک سے ہے اور بعض کا تعلق آپ کے اضافی اوصاف و کمالات سے ہے اور بعض میں آپ کے اندازِ حکومت اور دورِ اقتدار کی امتیازی حیثیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ان خصوصیات کی تعداد کا مختصر خاکہ علامہ شیخ عباس قمی نے ۴۶ امور سے مرتب کیا ہے:
۱۔ آپ کا نور ِ اقدس بھی انوار ِ قدسیہ کے درمیان ایک مخصوص حیثیت کا حامل ہے جیساکہ احادیث معراج سے ظاہر ہوتا ہے۔
۲۔ شرافت ِنسب، آپ کو جملہ ائمہ طاہرین سے انتساب کے علاوہ قیصر روم اور جناب شمعون وصی حضرت عیسیٰں سے بھی انتساب حاصل ہے۔
۳۔ روزِ ولادت روح القدس آپ کو آسمانوں کی طرف لے گیا اور وہاں فضائے قدس میں آپ کی تربیت ہوتی رہی۔
۴۔ آپ کے لیے ایک مخصوص مکان بیت الحمد نام کا ہے جہاں کا چراغ روزِ ولادت سے روشن ہے اور روزِ ظہور تک روشن رہے گا۔
۵۔ آپ کو رسول اکرم کا اسم گرامی اور کنیت دونوں کا شرف حاصل ہوا ہے، یعنی ”ابو القاسم محمد۔
۶۔ دور ِ غیبت میں آپ کو نام محمد سے یاد کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
۷۔ آپ کی ذات ِ گرامی پر وصایت کا عہدہ ختم ہوگیا اور آپ خاتم الاوصیاء ہیں۔
۸۔ آپ کو روز اول ہی سے غیبت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آپ ملائکہ مقربین کی تحویل میں رہے ہیں۔
۹۔ آپ کو کفار و مشرکین و منافقین کے ساتھ معاشرت نہیں اختیار کرنا پڑی۔
۱۰۔ آپ کو کسی بھی حاکم ظالم کی رعایا میں نہیں رہنا پڑا۔
۱۱۔ آپ کی پشت مبارک پر رسول اکرم کی مہر نبوت کی طرح نشانِ امامت ثبت ہے۔
۱۲۔ آپ کا ذکر کتب سماویہ میں القاب و خطابات کے ذریعہ ہوا ہے اور نام نہیں لیا گیا ہے۔
۱۳۔ آپ کے ظہور کے لیے بے شمار علامتیں بیان کی گئی ہیں۔
۱۴۔ آپ کے ظہور کا اعلان ندائے آسمانی کے ذریعہ ہوگا۔
۱۵۔ آپ کے دور ِ حکومت میں سن و سال کا انداز عام حالات سے مختلف ہوگا اور گویا حرکت فلک سست پڑ جائے گی۔
۱۶۔ آپ مصحف امیر الموٴمنین کو لے کر ظہور فرمائیں گے۔
۱۷۔ آپ کے سر پر مسلسل ابر سفید کا سایہ ہوگا۔
۱۸۔ آپ کے لشکر میں ملائکہ اور جنات بھی شامل ہوں گے۔
۱۹۔ آپ کی صحت پر طول زمانہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔
۲۰۔ آپ کے دور میں حیوانات اور انسانوں کے درمیان وحشت و نفرت کا دور ختم ہو جائے گا۔
۲۱۔ آپ کی رکاب میں بہت سے مر جانے والے بھی زندہ ہوکر شامل ہوں گے۔
۲۲۔ آپ کے سامنے زمین سارے خزانے الگ دے گی۔
۲۳۔ آپ کے دور میں پیداوار اور سبزہ زار اس قدر ہوگا کہ گویا زمین دوسری زمین ہو جائے گی۔
۲۴۔ آپ کی برکت سے لوگوں ی عقلوں کو کمال حاصل ہو جائے گا۔
۲۵۔ آپ کے اصحاب کے پاس غیر معمولی قوت ِ سماعت و بصارت ہوگی کہ چار فرسخ سے حضرت کی آواز سن لیں گے۔
۲۶۔ آپ کے اصحاب و انصار کی عمریں بھی طولانی ہوں گی۔
۲۷۔ آپ کے انصار کے اجسام بھی مرض اور بیماری سے بری ہوں گے۔
۲۸۔ آپ کے اعوان و انصار میں ہر شخص کو ۴۰ افراد کے برابر قوت عطا کی جائے گی۔
۲۹۔ آپ کے نور ِ اقدس کے طفیل میں لوگ نور شمس و قمر سے بے نیاز ہو جائیں گے۔
۳۰۔ آپ کے دست ِ مبارک میں رسول اکرم کا پرچم ہوگا۔
۳۱۔ آپ کے جسم اقدس پر رسول اکرم کی زرہ بالکل درست ہوگی۔
۳۲۔ آپ کے لیے ایک خاص بادل ہوگا جو آپ کو مختلف مقامات پر لے جایا کرے گا۔
۳۳۔ آپ کے دور میں تقیہ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور شوکت کاذبین و ظالمین کا خاتمہ ہو جائے گا۔
۳۴۔ آپ کی حکومت مشرق و مغرب عالم پر ہوگی۔
۳۵۔ آپ کے دور میں زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔
۳۶۔ آپ کے فیصلے علم امامت کے مطابق ہوں گے اور صرف ظاہری شواہد پر اکتفا نہ کی جائے گی۔
۳۷۔ آپ ان مخصوص احکام کو رائج کریں گے جو اس دور تک رائج نہ ہو سکے ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بیس سال کا نوجوان احکام دین سے بے خبر ہوگا تو اسے تہہ تیغ کر دیں گے اور زندہ رہنے کا حق نہ دیں گے کہ بلوغ کے بعد بھی پانچ سال کی مہلت دی جا چکی ہے۔
۳۸۔ آپ علوم کے ان ۲۵ حروف کا اظہار کریں گے جن کا اب تک اظہار نہیں ہو سکا ہے اور انبیاء کرام اور اولیاء عظام نے۲۷ حروف میں سے صرف دو کا اظہار کیا ہے۔
۳۹۔ آپ کے اصحاب و انصار کے لیے آسمان سے تلواریں نازل ہوں گی۔
۴۰۔ آپ کے اصحاب و انصار کی جانور تک اطاعت کریں گے۔
۴۱۔ آپ کوفہ میں حضرت موسیٰں کے پتھر سے پانی اور دودھ کی دو نہریں جاری فرمائیں گے۔
۴۲۔ آپ کی مدد کے لیے آسمان سے حضرت عیسیٰں نازل ہوں گے اور آپ کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔
۴۳۔ آپ اس دجال ملعون کو قتل کریں گے جس سے ہر نبی نے اپنی امت کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے۔
۴۴۔ آپ کے علاوہ امیر الموٴمنینں کے بعد کسی کے جنازہ پر سات تکبیروں کا جواز نہ ہوگا۔
۴۵۔ آپ کی تسبیح ۱۸ تاریخ سے آخر ماہ تک ہے، یعنی تقریباً ۱۲ دن۔ جب کہ باقی معصومین کی تسبیح بس ایک روز ہے یا دو روز۔
۴۶۔ آپ کی حکومت کا سلسلہ قیامت سے متصل ہوگا کہ آپ خود حکومت کریں گے یا ائمہ طاہرین رجعت فرمائیں گے یا آپ کی اولاد کی حکومت ہوگی لیکن مجموعی طور پر یہ سلسلہ قیامت سے متصل ہو جائے گا جیساکہ امام صادقں فرمایا کرتے تھے:
لکل اناس دولة یرقبونها
و دولتنا فی آخر الدهر لیظهر

آپ کے ذاتی دور ِ حکومت کے بارے میں علماءِ اعلام کے اقوال میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور سات سال سے 
۱۹ یا ۴۹ سال تک کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوگی اور امام حسینں آپ کی تجہیز و تکفین کے امور انجام دیں گے اور ائمہ طاہرین کی ظاہری حکومت کا سلسلہ شروع ہوگا جو دور ظہور امام عصر میں دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کی نگرانی میں اولیاء صالحین اور اولاد امام عصر حکومت کرے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک مستمر رہے گا۔ لیکن آپ کے دور حکومت میں سال سے مراد کیا ہے اور سات سال یا ۱۹ سال کس مقدار زمانہ کی طرف اشارہ ہے اور رجعت کی صورت کیا ہوگی؟ تمام ائمہ کرام تشریف لائیں گے یا بعض کا ظہور ہوگا؟۔۔۔۔۔ اور رجعت میں گزشتہ ترتیب کا لحاظ ہوگا یا کسی اور ترتیب سے تشریف لائیں گے؟ اور حکومت بھی گزشتہ ترتیب امامت کے مطابق ہوگی یا کوئی اور طریقہ کار ہوگا؟ پھر اولیاء صالحین سے مراد یہی ائمہ طاہرین یا ان کے مخصوص اصحاب مراد ہیں یا امام عصرں کی اولاد کے نیک کردار افراد مراد ہیں؟
یہ سارے امور ہیں جن کی تفصیل نہ واضح کی گئی ہے اور نہ کوئی شخص ان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر سکتا ہے۔ روایات میں بھی بے حد اختلاف پایا جاتا ہے اور علماء ِ اعلام کا استنباط و استنتاج بھی بالکل مختلف ہے۔ بنابریں اتنا اجمالی ایمان ضروری اور کافی ہے کہ دورِ ظہور امام عصر میں ائمہ طاہرین کی رجعت ہوگی اور ان کی حکومت قائم ہوگی کہ رب العالمیند نے آخرت سے پہلے صاحبانِ ایمان سے اس دنیا میں اقتدار اور حکومت کا وعدہ کیا ہے اور مظلومین کو ظالمین سے بدلہ لینے کا موقع دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا وجود اس لیے بھی ضروری ہے کہ امام عصرں کی شہادت کے بعد زمین حجت ِ خدا سے خالی نہ ہو جائے اور یہ سلسلہ صبح قیامت تک برقرار رہے، دین خدا تمام ادیان عالم پر غالب آئے اور صاحبانِ ایمان و کردار کی حکومت قائم ہو۔ خوف امن سے تبدیل ہو جائے اور ساری کائنات پر اس دین کا پرچم لہرائے جسے غدیر کے میدان میں پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ عبادت ِ الٰہی کا دور دورہ ہو اور شرک کا سلسلہ ختم ہو جائے اور ہر صاحب ِ ایمان کی زبان پر ایک ہی فقرہ ہو، ”الحمد للّٰہ رب العالمین جیساکہ دعائے ندبہ میں نہایت وضاحت کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے۔

 


Related image

امام عصر(عج)  کے ظہور کے بارے میں روایات میں جن علامات کا ذکر کیا گیاہے۔ ان کی دو قسمیں ہیں:

حتمی اور غیر حتمی۔

حتمی علامات

بعض علامتیں حتمی ہیں جن کا وقوع بہرحال ضروری ہے اور ان کے بغیرظہور کا امکان نہیں ہے۔ اور بعض غیر حتمی ہیں جن کے بعد ظہور ہو بھی سکتا ہے اورنہیں بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی اس امر کا واضح امکان موجود ہے کہ ان علامات کا ظہور نہہو اور حضرت کا ظہور ہو جائے اور اس امر کا بھی امکان ہے کہ ان سب کا ظہور ہو جائےاور اس کے بعد بھی حضرت کے ظہور میں تاخیر ہو۔
ذیل میں دونوں قسم کی علامتوں کا ایک خاکہ نقل کیا جا رہا ہے لیکن اس سے پہلے اسامر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ان روایات کا صدور آج سے سیکڑوں سال پہلے ہوا ہے اوران کے مخاطب اس دور کے افراد تھے اور ان کے متعلقات کا تعلق سیکڑوں سال بعد کےواقعات سے تھا جن کا سابقہ اس دور کے افراد سے ہوگا اور اس بنا پر یہ طے کرناتقریباً ناممکن ہے کہ روایات میں استعمال ہونے والے الفاظ سے مراد کیا ہے اور یہالفاظ اپنے لغوی معانی میں استعمال ہوئے ہیں یا ان میں کسی استعارہ اور کنایہ سےکام لیا گیا ہے۔
اگر روایات کا تعلق احکام سے ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ احکام کے بیان میںابہام و اجمال بلاغت کے خلاف اور مقصد کے منافی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ روایات کاتعلق احکام سے نہیں بلکہ واقع ہونے والے حادثات سے ہے اور ان کی تشریح کی کوئی ذمہداری بیانکرنے والے پرنہیں ہے بلکہ شاید مصلحت اجمال اور ابہام ہی کی متقاضی ہو کہہر دور کا انسان اپنے ذہن کے اعتبار سے معانی طے کرے اور اس معنی کے واقع ہوتے ہیظہور امام کے استقبال کے لیے تیار ہو جائے ورنہ اگر واضح طور پر علامات کا ذکر کردیا گیا اور انسان نے سمجھ لیا کہ ابھی علامات کا ظہور نہیں ہوا ہے تو ظہور امامکی طرف سے مطمئن ہو کر مزید بدعملی میں مبتلا ہو جائے گا۔
یہ سوال ضرور رہ جاتا ہے کہ پھر اس قسم کے علامات کے بیان کرنے کی ضرورت ہی کیاتھی؟۔۔۔ لیکن اس کا بالکل واضہ سا جواب یہ ہے کہ معصومین نے جب بھی ان آنے والےواقعات کا اشارہ دیا اور فرمایا کہ ایک دور آنے والا ہے جب دنیا ظلم و جور سے بھرجائے گی لیکن یہ دنیا کا اختتام نہ ہوگا بلکہ اس کے بعد ایک قائم آل محمد کا ظہورہوگا جو عالمی حالات کی اصلاح کرے گا اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا، تو قوم کے ذہن میں دو متضاد تصورات پیدا ہوئے۔ ایک طرف ظلم وستم کا حال سن کر مایوسی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی اور دوسری طرف ظہورِ امامکی خوش خبری سن کر س و اطمینان کا امکان پیدا ہوا تو فطری طور پر یہ سوالناگزیر ہوگیا کہ ایسے بدترین حالات تو ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ بنی امیہ اور بنیعباس کے مظالم تو آج بھی نگاہ کے سامنے ہیں اور ابھی دنیا ظلم و جور سے مملو نہیںہوئی ہے تو جب ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اس وقت دنیا کا کیا عالم ہوگا اور اسکے بعد اس اضطراب کا س اور اس بے چینی کا اطمینان کب میسر ہوگا اس کے حالاتعلامات کا معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ مظلوم و ستم رسیدہ اور بے کس و بے نوا کو اسحسِین مستقبل کے تصور سے کچھ تو اطمینان حاصل ہو اور ائمہ معصومین کی بھی ذمہ داریتھی کہ علامات کو ایسے کنایہ کے پیرایہ میں بیان کریں کہ ہر دور کا مظلوم س واطمینان کو قریب تر سمجھ سکے اور اس کے لیے اطمینان کا راستہ نکل سکے ورنہ بے شمارصاحبانِ ایمان مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اور رحمت ِ خدا سے مایوسی خود بھی ایکطرح کا کفر اور ضلال مبین ہے۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل مقصد کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہعلماءِ اعلام نے سات قسم کی علامات کو حتمی قرار دیا ہے:

۱۔ خروج دجّال

جس کا تذکرہ تمام عالم اسلام کی کتب احادیث میں پایا جاتا ہے اوراس کی طرح طرح کی صفات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ گدھے پر سوار ہوگا۔ ایک آنکھ سےکانا ہوگا، دوسری آنکھ پیشانی پر ہوگی، انتہائی درجہ کا جادوگر ہوگا اور لوگوں کوبہترین نعمتوں کی ترغیب دے گا۔ اس کے لشکر میں ہر طرح کے ناچ گانے کا ساز و سامانہوگا۔ وہ مختلف علاقوں کا دورہ کرکے لشکر جمع کرے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا،یہاں تک کہ حضرت کا ظہور ہوگا اور آپ براہِ راست یا آپ کی رکاب میں حضرت عیسیٰ بنمریم اسے فنا کر دیں گے۔
ان روایات سے تو بظاہر یہی معلو م ہوتا ہے کہ یہ کسی انسان کا تذکرہ ہے لیکن چونکہدجّال خود ایک صفت ہے اور اس کے معنی مکار اور فریب کار کے ہیں اس لیے بہت سےعلماء نے اس کے کنائی معنی مراد لیے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ مکاراور فریب کار حکومتیں ہیں جن کے ساز و سامان دجّال والے ہیں اور جنہوں نے ساریدنیا کو مسحور کر رکھا ہے اور ان کی نظر سرمایہ داری یا مزدوری پر ہے کہ ایک آنکھسے دیکھتے ہیں اور ایک آنکھ کو بند کر لیا ہے اور دیکھنے والی آنکھ کو اپنی پیشانیپر اتنا نمایاں کر لیا ہے کہ ہر شخص صرف اس کی چمک دمک دیکھ رہا ہے اور ان کیسواری کے لیے بے شمار انسان موجود ہیں جنہیں قرآن حکیم کی زبان میں گدھا ہی کہاگیا ہے کہ گویا ایک پورا ”خر صفت سماج ہے جس کی پشت پر سوار ہو کر اپنے دجل وفریب کی ترویج کر رہے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

۲۔ نداءِ آسمانی

اس سلسلہ میں روایات میں مختلف آسمانی آوازوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ایک سلسلہٴ اصوات ماہِ رجب میں ہے جس میں پہلی آواز ہوگی: ”ألا لعنة اللّٰہ علیالظالمین دوسری آواز ہوگی ”ازفة الآزفة اور تیسری آواز قرص آفتاب سے بلند ہوگیکہ امیر الموٴمنین دوبارہ دنیا میں انتقام کے لیے آرہے ہیں۔

دوسرا سلسلہ ماہِ مبارک رمضان میں ہوگا جہاں ۲۳ رمضان کو ظہور کی خوشخبری کا اعلان کیا جائے گا۔
اور تیسرا سلسلہ وقت ظہور قائم ہوگا جب قرص آفتاب سے حضرت کے مکہٴ مکرمہ سے ظہورکا اعلان ہوگا اور پورے شجرہٴ نسب کے ساتھ اعلان ہوگا اور اس اعلان کو شرق و غربعالم میں سنا جائے گا جس کے بعد صاحبانِ ایمان آپ کی بیعت اور نصرت کے لیے دوڑ پڑیںگے، اور آپ کے مقابلہ میں دوسری شیطانی آواز بھی بلند ہوگی جو مثل جنگ احد بہت سےمسلمانوں کو گمراہ کر دے گی۔

۳۔ خروج سفیانی

اس شخص کا نام عثمان بن عنبہ ہوگا اور یہ یزید بن معاویہ کی اولادمیں سے ہوگا۔ پہلے دمشق، حمص، فلسطین، اردن اور قنسرین پر حکومت قائم کرے گا اس کےبعد مختلف اطراف میں لشکر روانہ کرے گا جس کا ایک حصہ بغداد کی طرف جائے گا اورنجف و کربلا میں صاحبانِ ایمان کا قتل عام کرے گا۔ دوسرا حصہ مدینہ کی طرف جائے گااور وہاں قتل عام کرے گا اور پھر مکہ کا رخ کرے گا لیکن مکہ تک رسائی نہ حاصل کرسکے گا۔ تیسرا حصہ بطرف شام روانہ ہوگا اور راستہ میں لشکر امام عصر سے مقابلہہوگا اور اس حصہ کا ایک ایک شخص فنا کر دیا جائے گا۔ مکہ کی طرف جانے والا لشکرتین لاکھ افراد پر مشتمل ہوگا اور ایک صحرا میں دھنس جائے گا، صرف دو افراد باقیرہیں گے۔ ایک مکہ کی طرف جا کر امام عصرں کی فتح کی بشارت دے گا اور دوسرا شام کیطرف جا کر سفیانی کو لشکر کی ہلاکت کی اطلاع دے گا۔ اس کے بعد سفیانی خود کوفہ کارخ کرے گا اور پھر حضرت کا لشکر تعاقب کرے گا اور وہ فرار کر جائے گا یہاں تک کہبیت المقدس میں حضرت کے لشکر ہاتھوں واصل جہنم کر دیا جائے گا۔

اس روایت میں بھی اگرچہ نام اور نسب کا ذکر موجود ہے لیکن یہ دونوںباتیں عرف عام میں کنایہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہیں جس طرح کہ حضرت عائشہ نےقتل عثمان کی ترغیب دیتے وقت عثمان کا نام نہیں لیا تھا بلکہ نعثل کہہ کر یاد کیاتھا کہ مشابہت کی بنا پر دوسرا نام بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی حال شجرہٴ نسبکا بھی ہے کہ اس طرح کا قاتل و ظالم انسان یزید بن معاویہ کے علاوہ کسی شخص کی طرفمنسوب نہیں کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ خود یزید کے باپ نے زیاد کو اتحاد کردار کیبنا پر اپنے شجرہ پر شامل کر لیا تھا۔
بہرحال ایسے انسان یا ایسی طاقت کا ظہور ضروری ہے کہ خدا جانے کب انکشاف ہو جائےکہ موجودہ طاقت وہی طاقت ہے جسے سفیانی سے تعبیر کیا گیا ہے اور ظہور امام اورجہادِ امام کا قت آگیا ہے، لہٰذا موٴمنین کرام کو ہر وقت اس جہاد کے لیے تیار رہناچاہیے اور کسی وقت بھی اپنے فرض سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

۴۔ قتل نفس زکیہ

یعنی اولاد رسول اکرم میں ایک محترم اور پاکیزہ نفس انسان کو خانہٴکعبہ کے پاس رکن و مقام کے درمیان قتل کر دیا جائے گا اور اس کے بعد حضرت کا ظہورہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب روایت میں کسی تفصیل کا ذکر نہیں ہے تو کوئی بھی محترم کسیوقت بھی قتل ہو سکتا ہے اور اس کے بعد امام عصرں کا ظہور ہو سکتا ہے جب کہ حکومتوقت ہمہ وقت اولاد رسول کے قتل و خون کے درپے رہتی ہے۔

۵۔ خروج سید حسنی

دیلم اور قزوین کی طرف سے ایک سید حسنی جن کا شجرہٴ نسب امام حسنمجتبیٰں تک پہنچتا ہے خروج فرمائیں گے اور وہ نصرت امام کے حق میں آواز بلند کریںگے جس پر طالقان کی ایک عظیم سپاہ آپ کے گرد جمع ہو جائے گی اور آپ کوفہ کا رخکریں گے اور راستہ میں ظالموں کا قلع قمع کرتے جائیں گے اور اس وقت یہ خبر نشرہوگی کہ امام عصرں نے ظہور فرمایا ہے اور کوفہ تشریف لے آئے ہیں۔ سید حسنی ان کیخدمت میں حاضر ہوکر ان سے دلائن امامت کا مطالبہ کریں گے تاکہ تمام لوگوں پر ان کیامامت کا اثبات ہو جائے اور اس کے بعد حضرت کی بیعت کریں گے لیکن ان کے ساتھیوںمیں چار ہزار افراد معجزات کو جادو کا نام دے کر نہروان کے خوارج کی طرح بیعت سے انکارکر دیں گے اور بالآخر سب کے سب تہہ تیغ کر دیے جائیں گے۔

۶۔ وسط ِ ماہِ رمضان میں سورج گرہن اور آخر ماہِرمضان میں چاند گرہن کا واقع ہونا جو عام طور سے نہیں ہوتا ہے اور نہ قابل وقوعتصور کیا جاتا ہے۔

۷۔ آسمان میں ایک پنجہ کا ظاہر ہونا یا چشمہٴخورشید کے قریب سے ایک صورت کا ظاہر ہونا جو اس بات کی علامت ہے کہ آنے والا منظرعام پر آرہا ہے اور قدرت کا منشاء ہے کہ ساری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہو جائے اورکسی طرح کا ابہام نہ رہ جائے۔ اب اگر کسی انسان کو دن کا سورج بھی نظر نہ آئے توایسے بوم صفت اور شپرّہ چشم انسان کا کوئی علاج نہیں ہے۔
چشمہٴ آفتاب سے شکل و صورت کا ظہور غالباً اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ امامت کااقتدار زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا ہے اور جس طرح پہلے امام نے آفتاب کو پلٹا کراپنی امامت اور بندگی کا ثبوت پیش کیا تھا اسی طرح آخری امام بھی آفتاب ہی کےذریعہ اپنے اقتدار کا اظہار کرے گا اور اپنے دلائل کو روز ِ روشن کی طرح واضح کرےگا۔

آفتاب کے وسیلہ قرار دینے میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ زمینکا سارا نظام آفتاب کی گردش کا تابع ہے اور آفتاب کی گردش اشارہٴ امام کی تابع ہےتو جو شخص بھی گردش آفتاب کو منقلب کر سکتا ہے اور ڈوبے ہوئے آفتاب کو مغرب سےنکال سکتا ہے وہ نظام عالم کو کیونکر منقلب نہیں کر سکتا ہے؟ اور ڈوبے ہوئے اسلامو ایمان کو مغرب سے کیوں نہیں نمایاں کر سکتا ہے؟ ”ان ھذا الا اختلاق۔

غیر حتمی علامات

غیر حتمی علامات کی فہرست بہت طویل ہے اور بعض حضرات نے سیکڑوں سےگزار کر ان علامات کو ہزاروں کی حدوں تک پہنچا دیا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ انمیں اکثر باتیں علامات نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے ظلم و جور سے بھر جانے کی تفصیلاتہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان علامات میں ہر برائی کا تذکرہ موجود ہے جو دنیا کے ظلم وجور اور فسادات سے مملو ہو جانے کا خاصہ ہے۔ علامات کے طور پر حسب ذیل امور کاتذکرہ کیا جاتا ہے:

۱۔ مسجد کوفہ کی دیوار کا منہدم ہو جانا۔
۲۔ شط ِ فرات سے کوفہ کیگلیوں میں نہر کا جاری ہو جانا۔
۳۔ شہر کوفہ کا تباہی کےبعد دوبارہ آباد ہونا۔
۴۔ دریائے نجف میں پانیکا جاری ہو جانا۔
۵۔ فرات سے نجف کی طرفنہر کا جاری ہو جانا۔
۶۔ ستارہٴ جدی کے قریبدمدار ستارہ کا ظاہر ہونا۔
۷۔ دنیا میں شدید قسم کےقحط کا پیدا ہونا۔
۸۔ اکثر شہروں اور ملکوںمیں زلہ اور طاعون کا پیدا ہونا۔
۹۔ مسلسل قتل و خون کاہونا۔
۱۰۔ قرآن مجید کا زیوراتسے آراستہ کرنا، مساجد میں سونے کا کام ہونا اور میناروں کا بلند ترین ہونا۔
۱۱۔ مسجد براثا کا تباہہو جانا۔
۱۲۔ مشرق زمین میں ایکایسی آگ کا ظاہر ہونا جس کا سلسلہ تین روز یا سات روز تک جاری رہے۔
۱۳۔ سارے آسمان پر سرخیکا پھیل جانا۔
۱۴۔ کوفہ میں ہر طرف سےقتل و غارت کا برپا ہونا۔
۱۵۔ ایک جماعت کا بندراور سور کی شکل میں مسخ ہو جانا۔
۱۶۔ خراسان سے سیاہ پرچمکا برآمد ہونا۔
۱۷۔ ماہِ جمادی الثانیاور رجب میں شدید قسم کی بارش کا ہونا۔
۱۸۔ عربوں کا مطلق العناناور آوارہ ہو جانا۔
۱۹۔ سلاطینِ عجم کا بےآبرو اور بے وقار ہو جانا۔
۲۰۔ مشرق سے ایک ایسےستارہ کا برآمد ہونا جس کی روشنی چاند جیسی ہو اور شکل بھی دونوں طرف سے کج ہو۔
۲۱۔ تمام عالم میں ظلم وستم اور فسق و فجور کا عام ہو جانا جس کے بارے میں مولائے کائناتں نے اپنے خطبہمیں فرمایا تھا کہ ”جب لوگ نماز کو مردہ بنا دیں گے، امانتوں کو ضائع کر دیں گے،جھوٹ کو جائز بنا لیں گے، سود کھائیں گے، رشوت لیں گے، عمارتوں کو انتہائی مستحکمبنائیں گے، اقرباء سے قطع تعلق کر لیں گے، خواہشات کا اتباع کریں گے، خون کو سستابنا لیں گے، تحمل کو دلیل کمزوری اور ظلم کو باعث فخر سمجھ لیں گے، امراء فاجر ہوںگے، وزراء ظالم ہوں گے، عرفاء خائن ہوں گے اور قرّاء فاسق ہوں گے، جھوٹی گواہیوںکا زور ہوگا۔ فجور کو اعلانیہ انجام دیا جائے گا، قرآن مجید کو زیورات سے آراستہکیا جائے گا، مسجدوں میں سنہرا کام ہوگا، مینارے طویل ترین ہوں گے، اشرار کا احترامہوگا، صفوں میں اژدہام ہوگا اور خواہشات میں اختلاف ہوگا، عہد توڑے جائیں گے،عورتوں کو طمع دنیا میں شریک تجارت بنایا جائے گا، فساق کی آواز بلند ہوگی اور اسےسنا جائے گا، رذیل ترین آدمی سردار قوم ہوگا، فاجر سے اس کے شر کے خوف سے ڈرا جائےگا، جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی، خائن کو امین بنایا جائے گا، ناچ گانے کا کاروبارعام ہوگا اور امت کا آخری آدمی پہلے آدمی پر لعنت کرے گا، عورتیں گھوڑوں پر سواریکریں گی، مرد عورتوں سے مشابہ اور عورتیں مردوں سے مشابہ ہو جائیں گی، لوگ زبردستیگواہی پیش کریں گے اور بغیر حق کو سمجھے ہوئے گواہی دیں گے، علم دین غیر دین کےلیے حاصل کیا جائے گا، عمل دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے گی، دل بھیڑیوں جیسے اورلباس بکریوں جیسے ہوں گے، دل مردار سے زیادہ بدبودار اور ایلوا سے زیادہ تلخ ہوںگے۔ اس وقت بہترین مقام بیت المقدس ہوگا جس کے بارے میں لوگ تمنا کریں گے کہ کاشہماری منزل وہاں ہوتی۔
اس کے علاوہ اور بھی علامات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس دور کی عکاسی ہوتی ہے جبظلم و جور اور فسق و فجور کا دور دورہ ہوگا اور عدل و انصاف اور دین و ایمان دمتوڑ دیں گے۔


قرآن کریم یہود کو مؤمنوں کا شدید تریندشمن قرار دیتا ہے۔چنانچہ مؤمنین اور عقیدہ مہدویت کے مقابلے میں اس شدید تریندشمن کے نظریات اور حکمت عملیوں کا جائزہ لینا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنی اسرائیلحضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو سنہ ۱۷ قبلاز مسیح سے کنعان میں ہجرت کرکے آگئے اور وہاں سے مصر میں داخل ہوئے۔ اس قوم کوقبطیوں اور فرعون کے شدید ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ خداوند متعالنے ان میں سے حضرت موسی علیہ السلام کو پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا، جن کا مشنیہ تھا کہ اپنی قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائیں۔

فرعون نے بنی اسرائیل کی منتقلی کی مخالفتکی تو حضرت موسی(ع) اپنی قوم کے ساتھ دریا / سمندر پار کرگئے اور فیصلہ کیا کہسرزمین موعود (بیت المقدس) چلے جائیں۔ بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کے معجزےسے دریا پارکرنے میں کامیاب ہوئے اور فرعون اور اس کے سپاہی ڈوب کر ہلاک ہوئے۔

راستے میں بنی اسرائیل کی سرکشیاں اورنافرمانیاں اللہ کے وعدوں میں تاخیر کا سبب بنے۔  اور بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ۴۰ سالتک دربدری اور سرگردانی کے بعد موسی(ع) کے وصی یوشع بن نون(ع) کی قیادت میں سرزمینمقدس کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت یوشع بن نون علیہ السلام اپنی سپاہ کولے کر شہر اریحا” پر قابض ہوئے اور بنی اسرائیل اس شہر میں ست پذیر ہوئے۔یوشع(ع) عمالقہ کے خلاف لڑے اور شام اور فلسطین کی سرزمینوں کو بنی اسرائیل میںتقسیم کیا۔ ان کی وفات کے بعد، بنی اسرائیل کے درمیان کے اختلاف زور پکڑ گئے اوردشمنوں نے بنی اسرائیل کے شہروں پر حملے کئے اور ان کا قتل عام کیا۔ بنی اسرائیلنے خداوند متعال سے التجا کی کہ دشمنوں کے خلاف جدوجہد اور بنی اسرائیل کی عظمترفتہ بحال کرانے کے لئے انہیں ایک رہبر و قائد متعین فرمائے۔

خداوند متعال نے بنی اسرائیل کی دعا قبولفرمائی اور حضرت طالوت علیہ السلام کو ان کے دشمنوں کے خلاف لڑنے پر مامور فرمایا۔طالوت اور جالوت کے درمیان ہونے والی جنگ میں داؤد نامی نوجوان نے جالوت کو ہلاککر ڈالا اور خداوند متعال نے انہیں نبوت اور فرمانروائی عطا کی۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل کومتحد کیا۔ تاریخ یہود میں حضرت داؤد(ع) اور ان کے فرزند حضرت سلیمان نبی علیہالسلام کی حکمرانی کا دور، سنہری دور کہلاتا ہے۔ حضرت سلیمان(ع) نے جنوں کی مدد سےبیت المقدس میں ایک عظیم عبادتگاہ تعمیر کی۔
حضرت سلیمان(ع) کی وفات کے بعد، اختلافاتنے ایک بار پھر بنی اسرائیل کی راہ دیکھ لی اور ان کی قوت زائل ہو گئی اور آخرکار، سنہ ۵۸۶ قبل از مسیح میں بُختُ النَصر ـ جو ان دنوں بغداد اور مدائن کا حکمران تھا ـ بیت المقدس پر حملہ آور ہوا اور شہر کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کیا اورسلیمان(ع) کی عبادتگاہ کو منہدم کیا۔

یہود کی تزویری حکمت عملی کا تاریخی پہلوچار مراحل کی پیروی کرتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام سے آج تک کے ۳۰۰۰ سالسے زائد عرصے میں یہودی اسی پروگرام کے مطابق مصروف عمل رہے ہیں۔

پہلا مرحلہ: پہلامرحلہ مختلف سرزمینوں سے سرزمین مقدس کی طرف ہجرتوں کا مرحلہ ہے۔ یہ مسئلہ حضرتموسی(ع) کے زمانے میں دریا پار کرنے کی صورت میں انجام کو پہنچا۔
دوسرا مرحلہ: یہمرحلہ حضرت یوشع(ع) کی قیادت میں اریحا کی فتح اور فلسطین میں قیام حکومت پر مشتملتھا۔
تیسرا مرحلہ: یہمرحلہ بیت المقدس کی تسخیر کا مرحلہ تھا؛ حضرت سلیمان(ع) کی سلطنت کے دور میں بیتالمقدس پر یہودیوں نے قبضہ کیا۔ بعد میں بُختُ النَصر نے حملہ کرکے یہودیوں کومنتشر کردیا۔
جس وقت مسلمانوں نے بیت المقدس کو آزادکرایا تو یہودیوں نے عیسائیوں کو اکسایا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ۸صلیبی جنگوں میں الجھایا تا کہ آخرکار ایک بار پھر بیت المقدس کو مسخّر کریں۔
چوتھا مرحلہ: یہودکی تزویری حکمت عملی کا چوتھا مرحلہ سلیمان کی عبادتگاہ یا ہیکل سلیمانی کی تعمیرنو ہے جسے بُختُ النَصر نے منہدم کردیا تھا۔


دعا کی اہمیت و فضیلت

آیات وروایات :معصومین علیھم السلام کی سیرت اور باقیاعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلتروزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کےلئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارشکریں.

ارشاد رب العزت ہے: "اُدْعُوْنِیْاَسْتَجِبْ لَکُمْ" مجھے پکارو اور( مجھ سےدعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا، "قُلْ ادْعُوْا ﷲ"  اے رسول میرے بندوں سے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں۔

"یَامُوْسیٰ مُرعِبَادِی یَدْعُوْنِیْ" اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھےپکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں۔

"یَا عِیْسیٰ مُرْهُمْ اَنْ یَدْ عُوْنِیْ مَعَکَ"  اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ ملکر دعا کریں۔

حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترینانبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم کو دعا کےلئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔

پیغمبر اکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلماور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے۔

پیغمبر اکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلمفرماتے ہیں :یَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَاءِ۔اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں۔

"اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَاءُ" حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے۔

 قال رسول الله صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم :"اَلْدُّعَاءُمُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُهْلِکَ مَعَ الّدُعَاء اُحَد" رسولاکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم :دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئیشخص ہلاک نہیں ہوتا۔

"اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ "امام علی  علیہالسلام فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے، اور اسے شیطان کے حملہ اورگناہوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

"عَلَیْکَ بِالدُّعَاءِ فَاِنَّ فِیْهِشِفَاء مِنْ کُلِّ دَاءٍ" حضرت امام صادق علیہالسلام  فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہےکیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے۔

قال رسول الله صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم:"ترْکُالدُّ عَاءِ مَعْصِیَة"  پیغمبر اکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیںدعا کا ترک کرناگنا ہ ہے۔

قال رسول الله صلى‌الله‌علیه‌ و آله‌ و سلم: "اِدْفَعُوْااَبْوَابَ الْبَلَاءِ بِالّدُعَاءِ"رسول اکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعاکے ذریعے۔

"مَنْ قَرِعَ بَابَ ﷲ سُبْحِانَهُفُتِحَ لَه"حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں جوشخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کادروازہ) کھول دیا جا ئے گا۔دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خداونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے۔

شرائط قبولیت دعا

جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیتلئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئےبھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔

١۔ معرفت و شناخت خدا

قال رسول الله صلى‌الله‌علیه‌وآله ‌و سلم:"یقول ﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ هُوَ یَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَاَنْفَعُ اَسْتَجِبْ لَهْحضرت پیغمبر اکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلمسے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اورمعرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا ۔

امام صادق  علیہ السلامسے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیںہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا: "لِاَنَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَاتَعْرِفُوْنَهُ" آپ اس کو پکارتے ہو( اوراس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو ۔

٢۔محرمات اور گناہ کاترک کرنا

"اِنَّ ﷲ یَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَهْدِیاُوْفِ بِعَهْدِکُمْ وَﷲ لَوْ وَفَیْتُمْ ﷲ لَوَفٰی اللّٰهُ لَکُمْ "حضرتامام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کوپورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتےہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہبھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کوحل فرمائے گا ۔

٣۔کمائی اور غذا کاپاک و پاکیزہ ہونا

" مَنْ سَرَّهُ اَنْ یُسْتَجَابَ دُعَاءَهُفَلْیَطَیِّبْ کَسْبُهُ " امام صادق  علیہ السلام فرماتےہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنےکاروبار اور کمائی کو پاک کرے ۔

حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھبلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کیاور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :"لِاَنَّفِیْ بَطْنِه حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَهُرِه حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِه حَرَاماً"کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے  ( یعنی اسنے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کےگھر میں بھی حرام ہے۔

پیغمبر اکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلمفرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنےپیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔

٤۔حضور ورقت قلب

قال رسول الله صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم :اِعْلَمُوْا اَنَّ ﷲ لَا یَسْتَجِیْبُ دُعَاءَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ" رسولاکرم صلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعاقبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو۔

٥۔اخلاص وعبودیت

"فَادْعُوْا ﷲ مُخْلِصِیْنَ لَهالّدِیْن"خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگوخلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو۔

امام جعفر صادق علیہ السلامفرماتے ہیں : "وَقَدْوَعَدَ عِبَادَهُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَابَةَ" بےشک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے ۔

٦۔ سعی و کوشش

یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسانکام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْهُمْ دَعْوَتُهُمْ: رَجُلجَلَسَ فِیْ بَیتِه وَ قَال یَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَیُقَالُ لَهُ اَلَمْ اَجْعَلْلَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق" تینقسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میںبیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما ، اسے جواب دیا جائے گا، کیامیں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میںحصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اسکا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثرہے۔

اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹریا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکنڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعااور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اورہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔


 پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام مہدی (عج) کے بارے میں بیشمار پیشینگوئیاںفرمائی ہیں کہ امام مہدی (عج) آنحضور(ص) کی عترت اورحضرت فاطمة اہرا سلام اللہعلیھا کی اولاد سے ہوں گے۔  آنحضور (ص) نے یہبھی فرمایاہے کہ امام مہدی (عج) کا ظہورآخری زمانہ میں ہوگا ۔اورحضرت عیسی ان کے پیچھےنماز ادا کریں گے۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھجری یوم جمعہ بوقت طلوعفجرواقع ہوئی ہے جیسا کہ بعض علماءٴ کا کہنا ہے کہ ولادت کا سن ۲۵۶ ھج اور ما دہ ٴ تاریخنور ہے یعنی آپ شب برات کے اختتام پر بوقت صبح صادق عالم ظھور وشہود میں تشریفلائے ہیں ۔

حضرت امام حسن عسکری علیہالسلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکریعلیہ السلام کے پاس گئی تو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں قیامکریں کیونکہ خداوندعالم مجھے آج ایک وارث عطافرماے گا ۔ میں نے کہاکہ یہ فرزند کسکے بطن سے ہوگا ۔آپ نے فرمایاکہ بطن نرجس سے متولد ہوگا ،جناب حکیمہ نے کہا :بیٹے!میںتونرجس میں کچھ بھی حمل کے آثارنہیں پاتی،امام نے فرمایاکہ اے پھوپھی نرجس کی مثالمادرموسی جیسی ہے جس طرح حضرت موسی کاحمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہرنہیں ہوا ۔اسیطرح میرے فرزند کا حمل بھی بروقت ظاہرہوگا غرضکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیںقیام کیا جب آدھی رات گذرگئی تومیں اٹھی اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئی اورنرجس بھیاٹھ کرنمازتہجدپڑھنے لگی ۔ اس کے بعدمیرے دل میں یہ خیال گزراکہ صبح قریب ہےاورامام حسن عسکری علیہ السلام نے جوکہاتھا وہ ابھی تک ظاہرنہیں ہوا ، اس خیال کےدل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آوازدی :اے پھوپھی جلدی نہ کیجئے،حجت خداکے ظہورکا وقت بالکل قریب ہے یہ سن کرمیں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی ،نرجسمجھے راستے ہی میں ملیں ، مگران کی حالت اس وقت متغیرتھی ،وہ لرزہ براندام تھیںاوران کا ساراجسم کانپ رہاتھا ،میں نے یہ دیکھ کران کواپنے سینے سے لپٹالیا،اورسورہ قل ھواللہ ،اناانزلنا و آیة الکرسی پڑھ کران پردم کیا بطن مادرسے بچے کیآواز آنے لگی ،یعنی میں جوکچھ پڑھتی تھی ،بچہ بھی بطن مادرمیں وہی کچھ پڑھتا تھااس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن ومنورہوگیا ۔ اب جومیں دیکھتی ہوں تو ایکمولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑاہوا ہے میں نے بچہ کواٹھالیا حضرت امام حسن عسکریعلیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے میںلے گئی آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا ، اوراپنی زبان بچے کے منہ میں دےدی اورکہاکہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ،بچے نے اس آیت:"  بسم اللہ الرحمن الرحیم ونریدان نمن علی اللذیناستضعفوا فی الارض ونجعلھم الوارثین " کی تلاوت کی ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوںپرجوزمین پرکمزورکردئیے گئے ہیں اور ان کوامام بنائیں اورانھیں کوروئے زمین کاوارثقراردیں ۔

اس کے بعد کچھ سبزطائروںنے آکرہمیں گھیرلیا ،امام حسن عسکری (ع) نے ان میں سے ایک طائرکوبلایا اوربچے کودیتےہوئے کہا کہ" خذہ فاحفظہ الخ " اس کولے جاکراس کی حفاظت کرویہاںتک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے کیونکہخدا اپنے حکم کوپورا کرکے رہے گا میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائرتھا اوردوسرے طائر تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے ،اوردوسرے فرشتگان رحمتتھے اس کے بعد فرمایاکہ اے پھوپھی اس فرزند کواس کی ماں کے پاس لے آؤ تاکہ اس کیآنکھیں خنک ہوں اورمحزون ومغموم نہ ہو اور یہ جان لے کہ خدا کاوعدہ حق ہے واکثرھملایعلمون لیکن اکثرلوگ اسے نہیں جانتے ۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کےپاس پہنچادیاگیا ،  علامہ حائری لکھتے ہیںکہ ولادت کے بعد آپ کو جبرئیل پرورش کے لئے اٹھاکرلے گئے (2) جب آپ پیداہوئےتومختون اورناف بریدہ تھے اورآپ کے داہنے بازو پریہ آیت منقوش تھی جاء الحق وزھقالباطل ان الباطل کان زھوقا یعنی حق آیا اورباطل مٹ گیا اورباطل مٹ ہی جائےگا


ہفتہ: یہ رسول ﷲ کا دن ہے ہفتے کے روز حضرت رسول ﷲ(ص) کی یہ زیارت پڑھیں:

أَشْهَدُ أَنْ لاَ إلهَ إلاَّ ﷲ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَ نَّکَ رَسُولُهُ وَأَنَّکَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ ﷲ، وَأَشْهَدُ أَ نَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسالاتِ رَبِّکَ، وَنَصَحْتَ لاَُِمَّتِکَ وَجَاهَدْتَ فِی سَبِیلِ ﷲ بِالْحِکْمَةِ وَالمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَأَدَّیْتَ الَّذِی عَلَیْکَ مِنَ الْحَقِّ وَأَ نَّکَ قَدْ رَؤُفْتَ بِالْمُؤْمِنِینَ، وَغَلَظْتَ عَلَی الْکَافِرِینَ، وَعَبَدْتَ ﷲ مُخْلِصاً حَتَّی أَتیکَ الْیَقِینُ، فَبَلَغَ ﷲ بِکَ أَشْرَفَ مَحَلِّ الْمُکَرَّمِینَ، الْحَمْدُ لِلّٰهِِ الَّذِی اسْتَنْقَذَنا بِکَ مِنَ الشِّرْکِ وَالضَّلالِ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَاجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَصَلَوَاتِ مَلائِکَتِکَ وَأَنْبِیائِکَ وَالْمُرْسَلِینَ وَعِبَادِکَ الصَّالِحِینَ وَأَهْلِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرَضِینَ وَمَنْ سَبَّحَ لَکَ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ مِنَ الْاَوَّلِینَ وَالاَْخِرِینَ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ وَنَبِیِّکَ وَأَمِینِکَ وَنَجِیبِکَ وَحَبِیبِکَ وَصَفِیِّکَ وَصِفْوَتِکَ وَخَاصَّتِکَ وَخَالِصَتِکَ، وَخِیَرَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ، وَأَعْطِهِ الْفَضْلَ وَالْفَضِیلَةَ وَالْوَسِیلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِیعَةَ، وَابْعَثْهُ مَقاماً مَحْمُوداً یَغْبِطُهُ بِهِ الْاَوَّلُونَ وَالاَْخِرُونَ اَللّٰهُمَّ إنَّکَ قُلْتَ وَلَوْ أَنَّهُمْ إذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّاباً رَحِیماً، إلهِی فَقَدْ أَتَیْتُ نَبِیَّکَ مُسْتَغْفِراً تَائِباً مِنْ ذُ نُوبِی، فَصَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَاغْفِرْها لِی، یَا سَیِّدَنا أَتَوَجَّهُ بِکَ وَبِأَهْلِ بَیْتِکَ إلَی ﷲ تَعَالی رَبِّکَ وَرَبِّی لِیَغْفِرَ لِی أُصِبْنا بِکَ یَا حَبِیبَ قُلُوبِنا، فَمَا أَعْظَمَ الْمُصِیبَةَ بِکَ حَیْثُ انْقَطَعَ عَنَّا الْوَحْیُ وَحَیْثُ فَقَدْنَاکَ فَ إنَّا لِلّٰهِِ وَ إنَّا إلَیْهِ راجِعُونَ یَا سَیِّدَنا یَا رَسُولَ ﷲ صَلَوَاتُ ﷲ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ بَیْتِکَ الطَّاهِرِینَ، هذَا یَوْمُ السَّبْتِ وَهُوَ یَوْمُکَ، وَأَ نَا فِیهِ ضَیْفُکَ وَجَارُکَ، فَأَضِفْنِی وَأَجِرْنِی، فَ إنَّکَ کَرِیمٌ تُحِبُّ الضِّیَافَةَ، وَمَأمُورٌ بِالْاِجارَةِ، فَأَضِفْنِی وَأَحْسِنْ ضِیَافَتِی، وَأَجِرْنا وَأَحْسِنْ إجَارَتَنا، بِمَنْزِلَةِ ﷲ عِنْدَکَ وَعِنْدَ آلِ بَیْتِکَ، وَبِمَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَهُ، وَبِمَا اسْتَوْدَعَکُمْ مِنْ عِلْمِهِ فَإنَّهُ أَکْرَمُ الْاَکْرَمِینَ"

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اسکے رسول صلى‌ الله‌ علیه‌ وآله‌ و سلم ہیں اورآپ اور آپ ہی محمد صلى‌ الله‌علیه‌ وآله‌ و سلم ابن عبدعلیه‌ السلام اللہ ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنے پروردگار کے احکام پہنچائے اپنی امت کو وعظ ونصیحت کی اور آپ نے دانشمندی اور موعظہ حسنہ کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کیا اور حق کے بارے میں آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور بے شک آپ مومنوں کیلئے مہربان اور کافروںکے لیے سخت تھے آپ نے اللہ کی پر خلوص عبادت کی یہاں تک کہ آپ کا وقت وفات آگیا پس خدا نے آپ کہ بزرگواروں میں سب سے بلند مقام پر پہنچایا حمد ہے اس خدا کیلئے جس نے آپ کے ذریعے ہمیں شرک اور گمراہی سے نجات دی اے معبود! حضرت محمدصلى‌ الل ه‌علیه‌ وآله‌ وسلم اور ان کی آلعلیه‌السلام پر رحمت فرما اور اپنا درود اور اپنے ملائکہ اپنے انبیائ و مرسلین اپنے نیکوکار بندوں آسمانوں اور زمینوں میں رہنے والوں اے عالمین کے رب اولین وآخرین میں سے جو تیری تسبیح کرنے والے ہیں ان سب کا درود محمد صلى‌ الله‌ علیه‌ و آله‌  وسلم کیلئے قرار دے جوتیرے بندے تیرے رسولصلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم تیرے نبی صلى‌ الله‌ علیه‌ وآله‌ و سلم تیرے امین تیرے نجیب تیرے حبیب تیرے برگزیدہ تیرے پاک کردہ تیرے خاص تیرے خالص اور تیری مخلوق میں سے بہترین ہیں خدایا! ان کو فضل و فضیلت اور وسیلہ بخش اور بلند درجہ عطا فرما انہیں مقام محمود پر فائز فرما کہ جس کیلئے اگلے اور پچھلے سبھی ان پر ر شک کریں اے معبود! بے شک تو نے فرمایا کہ (اے رسول )اگر یہ لوگ اس وقت جب انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا تمہارے پاس آتے اور اللہ سے بخشش طلب کرتے اور اس کا رسولصلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم بھی ان کیلئے مغفرت طلب کرتا تو ضرور یہ خدا کو تو بہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔ میرے معبود!میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہوئے تیرے نبیصلى‌الله‌علیه‌وآله‌وسلم کے حضور آیا ہوں پس محمد صلى‌ الله‌ علیه‌ وآله‌ و سلم و آل محمد علیه‌ السلام پر رحمت فرما اور میرے گناہ بخش دے اے مولاعلیه‌ السلام !میں آپ کے اور آپ کے اہلبیت علیه‌ السلام کے ذریعے خدا کی طرف متوجہ ہوا ہوں جو آپ کا اور میرا پروردگار ہے تاکہ مجھے بخش دے گا۔

پھر تین مرتبہ کہیں:إنَّا لِلّٰهِِ وَ إنَّا إلَیْهِ رَاجِعُونَ پھر کہیں: بے شک ہم خدا کے لیے ہیں اور یقینا اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں سوگوار ہیں ہم آپ کیلئے اے ہمارے دلی محبوب ، یہ کتنی بڑی مصیبت ہے کہ اب ہم میں وحی کا سلسلہ کٹ گیا ہے اور ہم آپکے ظا ہری وجود سے محروم ہیں اور بے شک ہم اللہ کیلئے ہیں اور یقینا اسی کیطرف پلٹنے والے ہیں اے ہمارے سردار اے اللہ کے رسول : آپ پر خدا کی رحمتیں ہوں اور آپ کے اہل خاندان پر جو پاک ہیں آج ہفتہ کا دن ہے اور یہی آپ کا دن ہے اور آج میں آپ کا مہمان اور آپ کی پناہ میں ہوں پس میری میزبانی فرما یئے اور پناہ دیجیے کہ بے شک آپ سخی اور مہمان نواز ہیں اور پناہ دینے پر مامور بھی ہیں پس مجھے مہمان کیجیے اور بہترین ضیافت کیجیے مجھے پناہ دیجیے جو بہترین پناہ ہو آپ کو واسطہ ہے خدا کی اس منزلت کا جو وہ آپکے اور آپکے اہلبیت علیه‌ السلام کے نزدیک رکھتا ہے اور جو منزلت ان کی خدا کے ہاں ہے اور اس علم کا واسطہ کہ جو اس نے آپ حضرات کو عطا کیا ہے کہ وہ کریموں میں سب سے بڑا کریم ہے۔


بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

بِسْمِ ﷲ کَلِمَةِ الْمُعْتَصِمِینَ، وَمَقالَةِ الْمُتَحَرِّزِینَ، وَأَعُوذُ بِالله تَعَالی مِنْ جَوْرِ الْجَائِرِینَ، وَکَیْدِ الْحَاسِدِینَ، وَبَغیِ الظَّالِمِینَ، وَأَحْمَدُهُ فَوْقَ حَمْدِ الْحَامِدِینَ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْواحِدُ بِلاَ شَرِیکٍ وَالْمَلِکُ بِلاَ تَمْلِیکٍ لاَ تُضَادُّ فِی حُکْمِکَ وَلاَ تُنَازَعُ فِی مُلْکِکَ، أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ، وَأَنْ تُوزِعَنِی مِن شُکْرِ نُعْمَاکَ مَا تَبْلُغُ بِی غَایَةَ رِضَاکَ، وَأَنْ تُعِینَنِی عَلَی طَاعَتِکَ وَلُزُومِ عِبَادَتِکَ وَاسْتِحْقَاقِ مَثُوبَتِکَ بِلُطْفِ عِنَایَتِکَ، وَتَرْحَمَنِی بِصَدِّی عَنْ مَعَاصِیکَ مَا أَحْیَیْتَنِی وَتُوَفِّقَنِی لِمَا یَنْفَعُنِی مَا أَبْقَیْتَنِی، وَأَنْ تَشْرَحَ بِکِتَابِکَ صَدْرِی، وَتَحُطَّ بِتِلاوَتِهِ وِزْرِی، وَتَمْنَحَنِی السَّلاَمَةَ فِی دِینِی وَنَفْسِی، وَلاَ تُوحِشَ بِی أَهْلَ أُنْسِی وَتُتِمَّ إحْسَانَکَ فِیَما بَقِیَ مِنْ عُمْرِی کَمَا أَحْسَنْتَ فِیَما مَضَی مِنْهُ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

خدا کے نام سے شروع جو پناہ چاہنے والوں کا شعار اور بچائو چاہنے والوں کا ورد ہے اور میں ظالموں کی سختی، حسد کرنے والوں کے مکر اور ستمگاروں کے ستم سے خدا کی پناہ لیتا ہوںاورمیں حمد کرنے والوں سے بڑھ کر اس کی حمد کرتا ہوں خدایا! تو وہ یکتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور وہ بادشاہ ہے جس کا کوئی حصہ دار نہیں تیرے حکم میں تضاد نہیں اور تیری سلطنت میں اختلاف نہیں میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنے عبد خاص اور اپنے رسول محمدمصطفی پر رحمت فرما ، مجھے اپنی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کی اس طرح توفیق دے کہ جس سے تیری رضا کی انتہا حاصل کر سکوں اور مجھے اپنی فرمانبرادری کرنے، عبادت کو ضروری سمجھنے اور اپنے فضل وکرم سے اپنے اجرو ثواب کا حق دار بننے میں میری مدد فرما تاکہ میںتیری نافرمانیوں سے بچ سکوں جب تک زندہ رہوں اور مجھے اسکی توفیق دے جو میرے لیے مفید ہے جب تک باقی ہوں اپنی کتاب کے ذریعے میرا سینہ کھول دے اور اسکی تلاوت کے ذریعے میرے گناہ کم کر دے میری جان اور میرے دین میں سلامتی عطا فرما اور اہل انس کو مجھ سے خائف نہ کراور میری باقی زندگی میں مجھ پر کامل احسان فرما جیسے کہ میری گزری ہوئی زندگی میں مجھ پر احسان فرمایا ہے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔


حسن خلق در آموزه های قرآنی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

''قال رسول اللہ صلی اللہعلیہ و آلہ وسلم: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق''

مجھے اس لیئے مبعوث کیاگیا ہے تاکہ مکارم اخلاق کی تکمیل کر سکوں۔

حسن خلق کے معنی

حُسن خلق یعنی پسندیدہاور اچھى عادت، چنانچہ اس شخص كو  خوش اخلاق كہا جاتا ہے كہ اچھى عادتیں اُسكى ذات و فطرت كا جزو  بن چكى ہوں اور وہ دوسروں كے ساتھ كھلے چہرے اور اچہےانداز كے ساتھ پیش آنے كے ساتھ ساتھ پسندیدہ میل جول ركھے۔

امام جعفر صادق علیہالسلام نے حسن خلق كى تشریح كرتے ہوئے فرمایا: "تُلین جانبك وتطیّبُ كلامك وتلقى اخاك ببشرحَسَن"

تم اپنى ملاقات كے اندازمیں نرمى پیدا كرو، اپنى گفتگو كو شائستہ بناو اور اپنے بھائی سے خندہ پیشانى سےملے۔ 

اسلام میں اخلاق حسنہ كامقام:

اسلام ہمیشہ اپنى پیروكاروں كو دوسروں كے ساتھ نرمى اور خوش مزاجى سے پیش آنے كى طرف دعوت دینا ہے،اسلام نے خوش اخلاق انسان كى اہمیت كو صرف مسلمانوں تك محدود نہیں ركھا ہے بلكہاگر غیر مسلمان بھى اس نیك صفت كا حامل ہوں تو وہ بھى اس كے فوائد كو پاسكتاہے۔

جیسا كہ تاریخ میں بیانہوا ہے كہ رسول اکرم (ص) نے حضرت امام على علیه السلام كو ایسے تین افراد كے ساتھجنگ كرنے كا حكم دیا جو آپ (ص) كو شہید كرنے كى سازش میں متحد ہو چكے تہے، امامعلى علیه السلام نے ان میں سے ایك كو قتل كیا اور باقى دو كو قیدى بنا كر آپ (ص)كے سامنے پیش كیا، آنحضرت (ص) نے پہلے انہیں دین مبین اسلام كى طرف دعوت دی، لیكنانہوں نے اسے قبول كرنے سے انكار كیا، پھر آپ (ص) نے قتل كى سازش كے جرم پر ان كےخلاف قتل كا حكم جارى فرمایا، اسى دوران آپ (ص) پر جبرئیل (ع) نازل ہوا اور عرض كىکہ اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ان دونوں میں سے ایك شخص كو معاف كریں كیونكہ وہ خوشاخلاق اور سخاوتمند ہے، آپ (ص) نے بھى اس شخص كو معاف فرمایا، جب اس شخص كو معلومہو ا كہ اللہ تعالى نے اسے ان دو نیك صفات كى خاطر معاف فرمایا ہے تو اس نے اسلامكو تہ دل سے قبول كرلیا، پھر آپ (ص) نے اس شخص كے بارے میں فرمایا: یہ انلوگوں میں سے ہے جو خوش اخلاق اور سخاوتمند ہونے كى بناء پر جنت کے مستحق ہوئے۔

اسلامى مقدس نظریہ میںحسن خلق كا معنى كبھى یہ نہیں كہ اگر كسى نے كوئی غلط اور ناپسندیدہ فعل انجام دیاتو اس كے سامنے خاموش ہوجائیں یا ہنس دیں بلكہ ایسے موقع پر اس بات پر تاكید كىگئی ہے كہ اس فعل كے خلاف مناسب رد عمل كا اظہار كرنا چاہئے، اگرچہ چند افراد كىناراضگى كا سبب بن جائے، كیونكہ ہمیں اس وقت تك دوسروں كو ناراض نہیں كرنا چاہئے،جب تك اسلامى احكام اور اس كے اصول كى پامالى نہ ہو۔

ہمارے پورے معاشرے اور اسکے ایک ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ خود کو اس اصل سے روز بروز نزدیک کرے جس کے لئےحضرت رسول اعظم (ص) نے اپنی کمر ہمت کَسی اور بے پناہ سعی و کوشش کی۔

حضور اکرم (ص) کے اعلیمقاصد کو ایک جملہ میں نہیں سمویا جا سکتا تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان اغراض و مقاصدکے نمایاں پہلووں کو اپنی زندگی کے مختلف مراحل کے لئے سرمشق قرار دیا جا سکتا ہے۔

ان میں سے ایک پہلو مکارماخلاق کی تکمیل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: ''بعثت لاتمم مکارم الاخلاق''

نیک اخلاق و کردار کواپنائے بغیر معاشرہ حضور اکرم کے اعلی مقاصد تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔

صرف نیک اخلاق اور حسنخلق ہی فرد اور معاشرہ کو اعلی مراتب تک پہنچا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ نیک اخلاقصرف لوگوں سے خوش رفتاری میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد اپنے وجود میں نیکصفات اور عالی اخلاق کی پرورش اور اپنے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار ہے۔

جس معاشرے کے افراد حسد،بغض، حرص، بخل، حیلہ گری اور کینہ پروری جیسے پست اوصاف سے متصف ہوں تو قانون کےسخت نفاذ کے باجود بہے ایسا سماج سعادت سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔

اگر علم و ٹیکنالوجی اپنےعروج پر ہو، مدنیت اپنے کمال پر ہو پھر بہے یہ سماج مثالی سماج نہیں کہلائے گا۔

جس معاشرہ میں ایک انساندوسرے انسان سے خائف ہو، ایک انسان دوسرے کے حسد کا شکار ہو، دوسرے کے بغض و کینہاور اس کی سازشوں سے خوفزدہ ہو اس میں آرام و آسائش کا نام و نشان بہے نہ ہوگا،لیکن اگر کسی سماج میں عوام کے قلب و روح پر اخلاقی فضائل کی حکمرانی ہو، لوگ ایکدوسرے کے ساتھ مہربان ہوں، دلوں میں عفو و بخشش کے لئے جگہ ہو، مال دنیا کا لالچنہ پایا جاتا ہو، اپنے پاس موجود اشیاء کی نسبت بخل نہ ہو، ایک دوسرے سے حسد نہکریں، ایک دوسرے کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ نہ بنیں اور لوگوں میں صبر و بردباریکا بول بالا ہو تو ایسا سماج اگر مادی لحاظ سے بہت زیادہ ترقی یافتہ نہ بہے ہو، تببہے اس کے افراد، آرام و آسائش، س و اطمینان اور سعادت و خوش بختی سے ہمکنارہوں گے، یہ ہے حقیقی اور واقعی نیک اخلاق، ہمیں اسی کی ضرورت ہے، ہمیں اسلامیاخلاق و کردار کو روز بروز اپنے دل و جان اور قلب و روح میں پروان چڑھانا چاہئے،اگرچہ بلاشک و تردید اسلام کے انفرادی اور اجتماعی احکام و قوانین انسانی سعادت کاوسیلہ ہیں لیکن ان قوانین کے نفاذ کے لئے بہے نیک اخلاق کی ضرورت ہے۔

ھر معاشرہ کی زندگی اورھر قوم کے تکامل میں اخلاق شرط اساسی ہے، انسانی پیدائش کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کیبہے تخلیق ہوئی ہے۔

اخلاقیات کی عمرانسانیعمر کے برابر ہے، دنیا کا کوئی عقلمند ایسا نہےں ہے جس کو انسانی روح کی آسائش وسلامتی کے لئے اخلاقیات کے ضروری ہونے میں ذرہ برابر بہے شکہو، یا رشد اجتماعی کیبنیاد پر تقویت دینے اور عمومی اصلاحات میں اس کے سود بخش ہونے میں کسی قسم کا شبہہو۔

 بھلا ایسا شخصہے جس کو صداقت و امانت سے تکلیف ہو؟ یا وہ کذب و خیانت کے زیر سایہ سعادت کامتلاشی ہو؟

اخلاق کی اہمیت کے لئےیہے کافی ہے کہ ھر پسماندہ و ترقی یافتہ قوم چاہے وہ کسی دین و مذھب کی پابند بہےنہ ہو اخلاقی فضائل کو بڑے احترام و تقدس کی نظر سے دیکھتی ہے، اور زندگی کی پُرپیچ راہوں میں کچھ سلسلہ احکام کی پابندی کو ضروری سمجھتی ہے۔

انسان اپنی زندگی میںتمام مختلف راہوں کے اختیار کرنے کے باجود ھر جگہ ہر شخص اور ہر قوم و ملت کے لئےبلندی اخلاق کو ضروری سمجھتا رہا ہے اور طول تاریخ میں اس کی اہمیت مختلف صورتوںمیں باقی رہے ہے۔

 انسان کار گاہتخلیق سے ایسے فضائل لے کر آیا ہے جو آپس میں متضاد ہےں (مثلاً ) دل اچھے و برےصفات کا مرکز ہے اس لئے وجود انسانی کو برے صفات سے بچانے کے لئے سب سے پہلی کوششہونی چاھئے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے ان دو طاقتوں کو کنٹرول کرنا چاہیئے جوتمام حیوانی صفات کا منبع  ہیں، یعنی غضب و شہوت، پس جو شخص بہے منزل سعادت وتکامل کی طرف گامزن ہو اس کو چاہیئے کہ ان دونوں طاقتوں میں افراط سے پرہیز کرےاور ان دونوں قوتوں کے سخت و مضر میلانات کو مفید و زیبا ترین جذبات سے بدل دےکیونکہ انسان اپنی زندگی میں اپنے عواطف و جذبات سے بہت فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اسکے جذبات کا صحیح اظہار اسی وقت ہوتا ہے جب وہ جذبات عقل کے کنٹرول میں ہوں۔

 ایک علم النفس کاماہر کہنا ہے کہ: انسانی جذبات ایک ایسا خزانہ ہے جو دو چیزوں سے مرکب ہے ایک چیزایسی طاقتوں کا مرکز ہے جو فشار دینے والی ہےں اور دوسری چیز کے اندر مقاومت کیطاقتوں کو ودیعت کر دیا گیا ہے۔

اب جو بہے قدرت مقاومتیدستگاہ پر غالب آگئی وہے قدرت ہمارے وجود پر براہ راست حکومت کرے گی اور ھم کواپنا تابع و فرمانبردار بنا لے گی۔

 جن لوگوں نے اپنیباطنی قوتوں میں توازن بر قرار رکھا، خواھشات میں توافق رکھا اور اپنے عقل و دلمیں صلح و آشتی کو قائم کیا، انہیں لوگوں نے مشاکل حیات میں اپنے مستحکم و غیرمتزل ارادہ کے ساتھ خوشبختی کے مسلم راستہ کو طے کیا ہے۔

یہ بات اپنی جگہ پر درستہے کہ آج کل کی زندگی مشینی زندگی بن کر رہ گئی ہے اور انسان نے اپنی فکری قوتوںکے سھارے سمندروں کا سینہ چاک کر ڈالا ہے لیکن تمدن و تھذیب کے سینہ میں جو بدبختیاں موجود ہےں اور نسل بشرجن مشکلات کے تھپیڑوں میں گرفتار ہے اور پورا معاشرہجس بد نظمی و تباہے کا شکار ہے اس کی علت ت کی شکست اور فضائل اخلاقی سےدوری کے علاوہ کچھ بہے نہےں ہے۔

 ہاں یہ صحیح ہے کہجس تمدن پر مکارم اخلاق کی حکمرانی نہےں ہوتی وہ توازن و تعادل کے قانون کے بموجبتباہ و برباد ہو جاتا ہے۔

معاشروں اور تمدنوں کےاندر موجود شقاوت و بد بختی، نقص و کمی آج بہے لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لئےکافی ہے کہ وہ اس زمانہ میں بہے اخلاقی اقدار کے ویسے ہے محتاج ہےں جیسے پہلے تھے،مکارم اخلاق کے اندر آج بہے اتنی طاقت و قوت موجود ہے جو اس مردہ معاشرہ کے جسممیں نئی روح پہونک دے۔

جب ہم چاہتے ہیں کہ کسیمحفل یا معاشرے میں محبوب ہوں یا مقبول ہوں تو دوسروں پر اپنا اثر ڈالنا شروع کردیتے ہیں، اس طریقے سے ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ ہم بہتر طور پر دوسروں کےساتھ رابطہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔

کوشش کریں کہ جو کچھ آپہیں دوسرے کے سامنے اسی کو پیش کریں، اصل چیز ہمیشہ اصل ہوتی ہے، اگر دوسروں کےسامنے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں اور ہمیشہ سچ بولیں گے تو  وقت کے ساتھساتھ لوگوں میں آپ کی قدر اور عزت و احترام میں اضافہ ہو گا، اگر آپ خود اپنی اصلشخصیت کو چھپا رہے ہوں اور اس شخصیت کو پسند نہ کریں تو دوسروں سے کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ وہ  آپ کو پسند کریں۔

حسن خلق كے اُخروى فوائد

۱۔ حُسن خُلق كے سبب قیامتكے دن حساب میں آسانى ہوگى۔

حضرت امیرالمومنین علىعلیه السلام فرماتے ہیں: صلہ رحمى كرو كہ یہ تمہارى عمر كو بڑھائے گا، اپنے اخلاقكو اچھا بنائو كہ خدا تمہارا حساب آسان كرے گا۔

۲۔ جنت میں جانے كا موجببنتا ہے۔

حضرت رسول خدا (ص) فرماتےہیں: میرى امت، تقوى اور حسن اخلاق جیسى صفت كے زیادہ ہونے كى وجہ سے جنت میں جائےگی

۳۔ بلند درجات كا سبب قرارپاتا ہے۔

پیغمبر اكرم (ص) كا ارشادہے: بے شك حسن اخلاق كى وجہ سے بندہ آخرت كے بلند درجات اور اعلى مراتب تك جاپہنچتا ہے، اسكا حسن خلق اسكى عبادت كو چار چاند لگا دیتا ہے۔

بدخلقی

بدخُلقی' حُسن خُلق كىمتضاد ہے، جس قدر حُسن خُلق لائق تحسین اور قابل ستائش ہے، بدخلقى اسى قدر قابلمذمت اور قابل تنفر ہے۔

اسلام نے جہاں اخلاق حسنہكى بے حد تعریف كى ہے وہاں بدخُلقى كو نفرت كى نگاہ سے دیكھا ہے۔

رسول اكرم (ص) فرماتےہیں: "خَصلَتان لاَتَجتَمعان فى مسلم، اَلبُخلُ و سُوئُ الخلق''

كسى مسلمان میں دو خصلتیںجمع نہیں ہوسكتیں كنجوسى اور بداخلاقی۔

حضرت على علیه السلام اسبُرى خصلت كو ذلّت اور پستى كى علامت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "منَ اللوَّم سُوء الخُلق" بداخلاقى ایك لعنتو پستی ہے۔

دوسرى جگہ اسے جہالت اورنادانى كا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ''الخلق المذموم من ثمار الجھل'' بدخلقى جہالت كےثمرات میں سے ہے۔

بداخلاقى كا انجام

بداخلاقى كا انجام بہتبرا ہوتا ہے نمونے كے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

الف۔ انسان كو خدا كے قربسے دور كردیتى ہے۔

جیسا كہ امام محمد باقرعلیه السلام كا ارشاد ہے: ''عُبُوس الوجہ، وسوئُ البشر مكسَبَة لّلمقت وبعد من اللہ''

تُرش روئی اور بدخلقى خداكى ناراضگى اور اس سے دورى كى سبب ہے۔

ب۔ بداخلاقى انسان كى روحكو دكھ پہنچاتى ہے۔

جیسا كہ حضرت امام جعفرصادق علیه السلام فرماتے ہیں: "مَن ساء خلقہ عذب نفسہ''

جو شخص بد اخلاق ہوتا ہےوہ خود ہى كو عذاب میں مبتلا ركھتا ہے۔

ج۔ نیك اعمال كو تباہوبرباد كردیتى ہے۔

رسول خدا (ص) فرماتےہیں: "الخلق السَّی یُفسدالعمل كَما یُفسد الخَلُّ العَسَل''

بد اخلاقى  انسان كےعمل كو ایسے ہى تباہ كردیتى ہے جس طرح سركہ شہد كو تباہ كردیتا ہے۔

د۔ توبہ كے قبول ہونے میںركاوٹ بنتى ہے۔

جیسا كہ آنحضرت (ص) كاارشاد ہے: ''خداوند عالم بداخلاق شخص كى توبہ كوقبول نہیں كرتا، لوگوں نےپوچھا: یا رسول اللہ (ص) ایسا كیوں ہے؟آپ نے فرمایا :اس لئے كہ جب انسان كسىگناہ سے توبہ كرتا ہے، تو پھر اس سے بڑے گناہ كا مرتكب ہوجاتا ہے۔

ھ۔ رزق كو كم كردیتى ہے۔

امیرالمومنین علیه السلامفرماتے ہیں :"مَنسَآء خلقہ ضاقَ رزقہ''

جس کا اخلاق برا ہو اس کارزق بھی کم ہو جاتا ہے۔

و۔ انسان كو جہنمىبنادیتى ہے۔

جیسا كہ رسول خدا (ص) كىخدمت میں جب عرض كیا گیا كہ فلاں شخص دن كو روزہ ركھتا ہے اور رات كو عبادت میںگزار دیتا ہے لیكن بداخلاق ہے اور ہمسایوں كو ستاتا ہے، تو آنحضرت (ص) نےفرمایا :اس شخص میں كوئی اچھائی نہیں، وہ جہنمى ہے۔

نتیجہ:

اچھا اخلاق جہاں ہر انسانکا پسندیدہ فعل ہے وہیں برے اخلاق کو ہر انسان ناپسند کرتا ہے، اچھا اخلاق انسانکو دنیا اور آخرت کی سعادت عطا کرتا ہے لیکن برا اخلاق دنیا اور آخرت کی بد بختیکا سبب بنتا ہے، اچھا اخلاق دنیا میں انسان کو عزت عطا کرتا ہے تو برا اخلاق دنیامیں انسان کے لیئے ذلت و خواری کا سبب بنتا ہے۔

خداوند متعال سے دعا ہیکہہمیں اچھے اخلاق سے نوازے اور برے اخلاق سے بچائے اور ہمیں محمد و آل محمد علیھمالسلام کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت عطا فرمائے۔


نیروی خارق العاده یاران امام زمان (عج‌الله فرجه) – الشیعه

امامزمانہ(عج) کے مکتوبات کی پناہ میں عصر غیبت کے انحرافات سے محفوظ رہنا ممکن ہوجاتا ہےاور صحیح انتظار کے سائے میں اعتقادی خرابیوں کی اصلاح کا اہتمام کرکے روز بہ روزامام کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ انسیت پیدا کی جاسکتی ہے۔

عصرغیبت کی زندگی کی اپنی خصوصیات ہیں۔ جس زمانے میں حجۃ اللہ نظروں سے اوجھل ہیں اوراللہ کا فیض و فضل ان ہی طرف سے دوسری مخلوقات تک پہنچتی ہے اور آنحضرت(ع) اللہ کےبندوں کے تمام لمحات سے آگاہ ہیں؛ لیکن ہماری آنکھوں سے غائب ہیں، انہیں دیکھا بھیجائے تو پہچاننا ممکن نہیں ہے، ظاہر نہیں ہیں لیکن اللہ کے اذن سے حاضر و ناظرہیں۔ امر مسلّم ہے کہ ایسے دور کی زندگی کی صورت حال کچھ خاص قسم کی ہوگی۔ زندگیجو مکمل طور پر خوف و ہراس اور امید و انتظآر سے مالامال ہے۔ چنانچہ انسانی تاریخکے اس دور کو بخوبی خوف و امید کا دور کہا جاسکتا ہے۔

انکارکا خوف

اس دورمیں حضرت حجت(ع) تک رسائی، آپ کے دیدار اور زیارت کا امکان بہت کم اور محدود اورامام(ع) کی اپنی صوابدید اور انتخاب پر منحصر ہے۔ ایسے حالات میں اور امام(ع) کیغَیبَت کی طوالت کی وجہ سے ممکن ہے کہ امام زمانہ(عج) کے انکار کا باب بھی کھلجائے۔ کچھ لوگ عصر غیبت کے طویل ہونے کے باعث منکر ہو بھی چکے ہیں اور کچھ شکوک وشبہات پیدا کرکے ہزار سالہ زندگی کو ناممکن سمجھتے ہیں، اور کچھ دوسرے لوگ امام(ع)کے دیدار سے محروم رہنے کے بموجب ذہنی تشویش میں متبلا ہوکر انکاری ہوئے ہیں۔                                                                                     

اسعجیب و غریب صورت حال میں صرف ایک معتقد، محقق مؤمن ـ جو عشق امام(ع) میں سچا ہے ـ احسن اندازسے ایسے شبہات کا جواب دے سکتا ہے اور قرآن اور احادیث نیز معتبر تاریخی منقولات وشنی میں امام عصر(عج) کے طول عمر کو قبول کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کاقائل کرسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو تحقیق و مطالعہکرکے عقلی اور نقلی استدلالات کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور مہدویت سے متعلقشبہات کا جواب دینے کے درپے ہیں؟ کیا ہم امام صادق علیہ السلام کے بقول"شیطانی شبہات کے مقابلے میں پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور استوار اور لوہے سےزیادہ سخت" مؤمنین میں شامل ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ صرف اس طرح کے لوگوںکو امام عصر(عج) کے حقیقی منتظرین کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔
خداوند متعال نےقرآن کریم میں بارہا ارتداد کو بہت زیادہ امکانی خطرہ قرار دیا ہے جو اللہ کی لعنتاور ابدی عذاب کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآنی آیات کے درمیان مہدویت کےموضوع اور مصداق کے سلسلے میں ارشاد ہوا ہے:
وَعَدَ اللَّهُالَّذِینَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُم فِیالْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْدِینَهُمُ الَّذِی ارْتَضَى لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْأَمْناً یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِكُونَ بِی شَیْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَفَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ؛

 اللہ کا تم میں سے ان بندوں سے (کہ خدا اور حجتِعصر) پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کرتے رہیں، وعدہ ہے کہ (بعد از ظہور) روئے زمینپر انہیں ضرور بہ ضرور خلیفہ قرار دے گا  جس طرح کہ اس نے انہیں خلیفہ بنایاتھا جو ان سے پہلے تھے اور ضرور اقتدار عطا کرے گا ان کے اس دین کو جو اس نے ان کےلئے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گا ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میریعبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد کفراختیار کرے تو یہی فاسق لوگ ہوں گے۔ (2) اس آیت شریفہ میں بھی انکارے کے خطرے سےخبردار کیا گیا ہے۔

امامموسی کاظم علیہ السلام نے بھی ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا ہے:

إِذَافُقِدَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ السَّابِعِ فَاللَّهَ اللَّهَ فِی أَدْیَانِكُمْلَا یُزِیلُكُمْ عَنْهَا أَحَدٌ؛

جبساتویں امام [یعنی میرا] پانچواں فرزند غائب ہوجائے تو اپنے دین کا خیال رکھو،کہیں کوئی تمہیں تمہارے دین سے دور نہ کردے۔

انحرافکا خوف

امامزمانہ(عج) کی محبت اور وصال کے راستوں کی تلاش اور عرصۂ فراق کی طوالت اور حتی کہوصال کے لئے عجلت، مہدویت کے دکانداروں کی منڈی کی رونق کا باعث بن سکتی ہے؛ وہیدکاندار جنہوں نے لوگوں کی اس مخلصانہ محبت اور پاک ترین عقیدت کو بازیچہ اور اپنےلئے شہرت، دنیاوی اعتبار اور مال و دولت کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ عباسی بادشاہمہدی عباسی سے لے۔

جس نےامام موسی کاظم علیہ السلام کے عصر امامت میں اپنے آپ کو مہدی موعود قرار دیا اورعباسیوں نے اس موضوع کو اپنی بادشاہت کے استحکام کا ذریعہ بنایا ،حال حاضر تک کہ کچھلوگ اپنے آپ کو امام(ع) کی زوجہ، امام(ع) کا فرزند، امام(ع) کا نائب، امام(ع) کا بابوغیرہ وغیرہ کہلواتے ہیں؛ سب کے سب اپنے مفادات کے لئے افراد کے خالصانہ عشق ومودت سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور امام مہدی(عج) کے عشاق اور محبین و منتظرین کےعقیدے میں انحراف پیدا کرنے کے مصادیق ہیں۔

نجاتدہندہ کے دیرینہ عقیدے اور مہدویت کے اعتقاد سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا امکان اسقدر قوی تھا کہ احادیث میں ہمیں امام زمانہ(عج) کے ساتھ رابطہ رکھنے کے دعویداروںسے دور رہنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ امام زمانہ(عج) نے اپنے آخری نائب خاص علی بنمحمد سمری (رضوان اللہ علیہ) کے نام اپنے آخری خط میں لکھا: "بسم الله الرحمن الرحیم یا علی بن محمدالسمری أعظم الله أجر إخوانك فیك: فانك میت ما بینك وبین ستة أیام فاجمع أمرك ولاتوص إلى أحد فیقوم مقامك بعد وفاتك، فقد وقعت الغیبة التامة فلا ظهور إلا بعد إذنالله تعالى ذكره وذلك بعد طول الامد وقسوة القلب وامتلاء الارض جورا وسیأتی شیعتیمن یدعی المشاهدة ألا فمن ادعى المشاهدة قبل خروج السفیانی والصیحة فهو كذابمفتر۔۔۔؛ 

 اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم والاہے۔ اے علی بن محمد سمری! خداوند متعال آپ کے سوگ پر آپ کے بھائیوں کے اجر میںاضافہ فرمائے۔ آپ چھ دن بعد زندگی سے وداع کریں، اپنے امور کو منظم کرنا اور[نیابت خاصہ میں] اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہ کرنا، کیونکہ غیبت کبری کا آغازہوچکا ہے اور ظہور اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہوگا، اور وہ بھی طویل عرصے کے بعد جببہت سے دل قساوت کا شکار ہوچکے ہونگے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ آگاہرہنا جس نے بھی سفیانی کی بغاوت اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کیا، بہت جھوٹااور بہتان تراش ہے۔

نیز معصومین علیہمالسلام نے ہم سے تقاضا کیا ہے کہ کبھی بھی ظہور کے لئے وقت متعین نہ کریں اور امامجعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

كَذِبَالْوَقَّاتُونَ كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ إِنَّ مُوسَی علیهالسلام لَمَّا خَرَجَ وَافِداً إِلَی‏ رَبِّهِ وَاعَدَهُمْ ثَلَاثِینَ یَوْماًفَلَمَّا زَادَهُ اللَّهُ عَلَی الثَّلَاثِینَ عَشْراً قَالَ قَوْمُهُ قَدْأَخْلَفَنَا مُوسَی علیه السلام فَصَنَعُوا مَا صَنَعُوا؛ [ظہور کے لئے] وقت کا تعین کرنے والے جھوٹےہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں؛ بےشک جبحضرت موسی علیہ السلام اللہ کا حکم لینے [طور سیناء میں] داخل ہوئے تو اللہ انھوںنے اپنی قوم کو 30 دن کا وعدہ دیا اور جب اللہ نے 10 دن کا اضافہ کیا تو ان کی قومنے کہا: موسی(ع) نے ہمارے سے وعدہ خلافی کی ہے، اور انھوں نے کیا جو کیا (یعنیبچھڑے کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اور سامری کے مرید)۔
چنانچہ اگر مہدویتکے مباحث مصادیق اور وقت کے تعین پر مرکوز ہوجائیں، اور بطور مثال شعیب بن صالح،سید یمانی، سید خراسانی، نفس زکیہ وغیرہ کے لئے مصادیق معین کئے جائیں یا کوئی خاصوقت یعنی سال و ماہ و تاریخ ظہور کے لئے متعین کیا جائے اور پھر نہ وہ اشخاص وہیہوں جنہیں مذکورہ عناوین کا مصداق گردانا گیا ہے اور نہ اس گھڑی ظہور وقوع پذیر ہوجس کا تعین کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ ظہور و انتظآر پر لوگوں کے عقیدے کے سستہونے اور اصولی طور پر خود عقیدہ مہدویت کے متنازعہ ہوجانے، اور اس بنیادی عقیدےسے عوامی روگرانی کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔
اصلاحاور انتظار کی امید

مذکورہخدشوں اور مخاوف کے ساتھ ساتھ غیبت کبری کے دوران فردی اصلاح اور ظہور کے لئے مکملتیاری کی امید بھی ہے؛ یوں کہ انسان تیاری کرے اور پوری آمادگی اور ادب کے ساتھاپنے آپ کو امام زمانہ(عج) کے حضور میں حاضری دینے کا منتظر ہو، اور یہ کہ انسانجانتا ہے کہ اپنی تیاری اور محنت و کوشش اور اہلیت کے تناسب سے امام زمانہ(عج) کیحکومت عدل میں صاحب منزلت ہوگا اور بہت بہتر انداز سے اسلام اور امت کی خدمت کرسکےگا؛ اور یہ کہ انسان ترکِ گناہ اور فرائض کی ادائیگی کو اپنے امام کی خوشنودی کاسبب جانتا ہے اور عصر ظہور میں سربلند اور رو سفید ہوکر حضرت مہدی(عج) کا دیدارچاہتا ہے؛ یہ سب عصر غیبت کی امید آفرینی کے ثمرات ہیں۔
غیبت کے زمانے میںہی امام کو یاد رکھنا اور ایمان کا تحفظ کرنا تمام ائمۂ اطہار علیہم السلام کےزمانوں میں مؤمنانہ کردار سے زیادہ بہتر و بالاتر ہے؛ جیسا کہ امام زین العابدینعلیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ ثَبَتَعَلَى مُوَالاَتِنَا فِی غَیْبَةِ قَائِمِنَا أَعْطَاهُ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّأَجْرَ أَلْفِ شَهِیدٍ مِثْلَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأُحُدٍ؛

جو شخصہمارے قائم(عج) کی غیبت کے زمانے میں ہماری پیروکاری پر ثابت قدم رہے خداوند متعالاس کا اجر بدر اور احد کے شہداء کی سطح کے ہزار شہیدوں کے برابر قرار دیتا ہے۔

ایک حقیقی منتظرقطعی انحراف کا باعث بننے والی شیطانی جلدبازیوں سے بالکل دور رہ کر معتبر احادیثاور دعاؤں سے حاصل ہونے والی معرفت کی روشنی میں، بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اگرصحیح انتظآر کی حالت میں ہوتے ہوئے موت کو گلے لگا لے اور اس کی دنیاوی زندگیزمانۂ ظہور کے ادراک سے قبل ہی اختتام پذیر ہوجائے تو پھر بھی رجعت کے اصولوں اوردعائے عہد کے بیان کے مطابق، نئی زندگی پائے گا اور صدائے تکبیر کے ساتھ اپنی قبرسے محشور ہوگا اور اپنے امام کی مدد کو پہنچے گا۔ چنانچہ حتی کہ پیرانہ سالی اورظہور کی عدم وقوع پذیری بھی اسے صحیح انتظار سے باز نہیں رکھتی اور اس کی امیدکبھی بھی ناامیدی میں نہیں بدلتی؛ کیونکہ وہ ہر صبح یہ دعا پڑھتا رہا ہے کہ:
"اللَّهُمَّ إِنْ حَالَ بَیْنِی وَ بَیْنَهُالْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَهُ عَلَى عِبَادِكَ حَتْماً مَقْضِیّاً، فَأَخْرِجْنِیمِنْ قَبْرِی مُؤْتَزِراً كَفَنِی شَاهِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَنَاتِیمُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحَاضِرِ وَ الْبَادِی؛

اےخدا! اگر میرے اور میرے امام(ع) کے درمیان حائل ہوئی جسے تو نے اپنے بندوں کے لئےحتمی اور قطعی قرار دیا ہے، تو مجھے میری قبر سے کفن پوش ہوکر، بے نیام تلوار اوربرہنہ نیزہ ہاتھ میں لئے داعی حق کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا، شہر نشین اور صحرانشین کے درمیان۔

سے مہدوی نعرے برحق ہیں؟

مخاوفسے جان بچا کر قلب سلیم کے ساتھ عہدہ برآ ہونے اور امید واثق کے ساتھ عاقلانہ وعاشقانہ انتظار کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم امام عصر(عج) کی صرف دو توقیعات شریفہ کےپابند ہوں؛
توقیع شریف اسحاقبن یعقوب کے نام:
فَمَنْ أَنْكَرَنِیفَلَیْسَ مِنِّی وَسَبِیلُهُ سَبِیلُ اِبْنِ نُوحٍ ۔۔۔ وَأَمَّا ظُهُورُاَلْفَرَجِ فَإِنَّهُ إِلَى اَللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَكَذَبَ اَلْوَقَّاتُونَ ۔۔۔ وَأَمَّا اَلْحَوَادِثُ اَلْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَى رُوَاةِحَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَیْكُمْ وَأَنَا حُجَّةُ اَللَّهِ. وَأَمَّاوَجْهُ اَلاِنْتِفَاعِ بِی فِی غَیْبَتِی فَكَالاِنْتِفَاعِ بِالشَّمْسِ إِذَاغَیَّبَهَا عَنِ اَلْأَبْصَارِ اَلسَّحَابُ وَإِنِّی لَأَمَانٌ لِأَهْلِاَلْأَرْضِ كَمَا أَنَّ اَلنُّجُومَ أَمَانٌ لِأَهْلِ اَلسَّمَاءِ فَأَغْلِقُوابَابَ اَلسُّؤَالِ عَمَّا لاَ یَعْنِیكُمْ وَلاَ تَتَكَلَّفُوا عِلْمَ مَا قَدْكُفِیتُمْ وَأَكْثِرُوا اَلدُّعَاءَ بِتَعْجِیلِ اَلْفَرَجِ فَإِنَّ فِی ذَلِكَفَرَجَكُمْ؛

جومیرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہوگا اور اس کی مثال نوح کی بیٹے کی مثال ہے. اورظہورِ فَرَج اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو لوگ وقت کا تعین کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں.اور نئے رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں ہماری حدیثوں کے راویوں رجوع کیاکرنا کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں جیسا کہ میں خدا کی طرف سے ان پر حجتہوں. اور یہ کہ لوگ میری غیبت میں میرے وجود سے کیونکر مستفید ہونگے تو میرےوجود سے استفادہ بادلوں میں چھپے سورج سے اسفادہ کرنے کی مانند ہے، میں اہل زمینکے لئے امان ہوں جس طرح کہ ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں۔ ایسے سوالات پوچھنےسے پرہیز کرو جن کا تمہارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے اور اپنے آپ کو ایسی چیزوں کےسیکھنے کے لئے مشقت میں مت ڈالو جن کی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ میرے ظہورِ فَرَج کیتعجیل کے لئے بہت دعا کیا کرو کیونکہ یقینا میرے ظہور میں تمہاری اپنی فراخی اورتمہارے اپنے مسائل کا حل ہے۔
توقیع شریف کےمذکورہ بالا اقتباسات میں ـ عصر غیبت کے دوران ثابت قدمی، ایمان کے تحفظ،عقیدۂ مہدویت اور ظہور کی تعجیل کے لئے دعا اور مراجع تقلید اور مکتب اہل بیت(ع) کےفقہاء اور علماء سے رجوع کے سلسلے میں بہت اہم نکات بیان فرمائے گئے ہیں۔

چنانچہایک فرد یا گروہ ـ حتی ظاہری طور پر مہدوی نعروں کے ساتھ ـ اگر فقہائےعظام اور مراجع تقلید کی مخالفت کرے تو اس کے تمام تر نعرے باطل ہیں اور وہ شخص اہلبدعت ہے۔ یہ مسئلہ ہم سے ہمارے امام معصوم، مہدی مُنتَظَر کا تقاضا اور آنجناب کافرمان ہے جو آپ نے اپنے آخری نائب خاص کے نام اپنے آخری خط میں تحریر فرمایا ہے۔
فرماتے ہیں:

بِسْمِاَللّٰهِ اَلرَّحْمٰنِ اَلرَّحِیمِ  فَقَدْ وَقَعَتِ اَلْغَیْبَةُاَلتَّامَّةُ فَلاَ ظُهُورَ إِلاَّ بَعْدَ إِذْنِ اَللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُوَذَلِكَ بَعْدَ طُولِ اَلْأَمَدِ وَقَسْوَةِ اَلْقُلُوبِ وَاِمْتِلاَءِاَلْأَرْضِ جَوْراً وَسَیَأْتِی شِیعَتِی مَنْ یَدَّعِی اَلْمُشَاهَدَةَ أَلاَفَمَنِ اِدَّعَى اَلْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوجِ اَلسُّفْیَانِیِّ وَاَلصَّیْحَةِ فَهُوَكَذَّابٌ مُفْتَرٍ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ اَلْعَلِیِّاَلْعَظِیمِ۔

اللہکے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔۔۔  غیبت تامّہ (یا غیبت کبری]کا آغاز ہوچکا ہے، اور کوئی ظہور نہیں ہے سوا اللہ کے اذن کی رو سے، بہت طویل عرصےکے بعد، دلوں کی قساوت اور زمین کے ظلم و ستم سے بھر جانے کے بعد، اور یہ کہ بہتجلد کچھ لوگ تمہاری طرف آئیں گے اور دیدار [بمع نیابت] کا دعوی کریں گے لیکن جب تککہ سفیانی کی بغاوت کا آغاز نہیں ہوا اور آسمانی چیخ سنائی نہیں گئی، ایسا کوئیبھی دعوی کرنے والا جھوٹا اور دھوکہ باز ہے؛ اور  اللہ کے سوا  کوئی بھیقوت اور طاقت نہیں ہے۔
امام زمانہ کےمکتوبات کی پناہ میں عصر غیبت کے انحرافات سے محفوظ رہنا ممکن ہوجاتا ہے اور صحیحانتظار کے سائے میں اعتقادی خرابیوں کی اصلاح کا اہتمام کرکے روز بہ روز امام کیقربت حاصل کی جاسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ انسیت پیدا کی جاسکتی ہے۔


جمعہ کا دن حضرت صا حب امان ﴿عج﴾ کا دن ہے اور انہیں سے منسوب ہے اور یہ وہی دن ہے جس دن آپ ظہور فرمائیں گے آپ کی زیارت یہ ہے:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حُجَّۃَ اللّهِ فِی ٲَرْضِہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا عَیْنَ اللّهِ فِی خَلْقِہِ اَلسَّلاَمُ

آپ پر سلام ہو جو خدا کی زمین میں اس کی حجت ہیں آپ پر سلام ہو جو خدا کی مخلوق میں اس کی آنکھ ہیں آپ پر

عَلَیْکَ یَا نُورَ اللّهِ الَّذِی یَھْتَدِی بِہِ الْمُھْتَدُونَ وَیُفَرَّجُ بِہِ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ

سلام ہو جو خدا کے وہ نور ہیں جس سے ہدایت چاہنے والے ہدایت پاتے ہیں اور جس سے مومنوں کو کشادگی ملتی ہے آپ پر سلام ہو

ٲَیُّھَا الْمُھَذَّبُ الْخائِفُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ ٲَیُّھَا الْوَلِیُّ النَّاصِحُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَفِینَۃَ

جو نیک طینت ڈرنے والے ہیں آپ پر سلام ہو اے خیر خواہ و سرپرست آپ پر سلام ہو اے کشتی

النَّجاۃِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا عَیْنَ الْحَیَاۃِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ، صَلَّی اللّهُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ

نجات آپ پر سلام ہو اے چشمہ حیات آپ پر سلام ہو خدا کی رحمت ہو آپ(ع) پر اورآپکے پاک

بَیْتِکَ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ عَجَّلَ اللّهُ لَکَ مَا وَعَدَکَ مِنَ النَّصْرِ وَظُھُورِ

و پاکیزہ خاندان(ع) پر آپ پر سلام ہو خدا اس امر کے ظہور او نصرت میں جس کا وعدہ اس نے آپ سے

الْاَمْرِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ ٲَنَا مَوْلاکَ عَارِفٌ بِٲُولاَکَ وَٲُخْرَاکَ ٲَتَقَرَّبُ إلَی اللّهِ

کیا ہے آپ(ع) پر سلام ہو اے میرے سردار میں آپ کا غلام ہوں آپ کے آغاز و انجام سے واقف ہوں میں خدا کا قرب چاہتا

تَعَالَی بِکَ وَبِآلِ بَیْتِکَ وَٲَنْتَظِرُ ظُھُورَکَ وَظُھُورَ الْحَقِّ عَلَی یَدَیْکَ وَٲَسْٲَلُ اللّهَ ٲَنْ

ہوں آپ کا اور آپکے خاندان کے و سیلے کا انتظا کرتا ہوںآپکے ظہوراورآ پکے ہا تھو ں حق کے ظہو ر کا اور خد ا سے سو ال کرتا ہوں

یُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ یَجْعَلَنِی مِنَ الْمُنْتَظِرِینَ لَکَ وَالتَّابِعِینَ وَالنَّاصِرِینَ

کہ وہ محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرمائے اور مجھے آپکے انتظار کرنے والوں اور پیروی کرنے والوں اور آپ کے دشمنوں کے

لَکَ عَلَی ٲَعْدائِکَ وَالْمُسْتَشْھَدِینَ بَیْنَ یَدَیْکَ فِی جُمْلَۃِ ٲَوْلِیَائِکَ یَا مَوْلایَ یَا صَاحِبَ

مقابل آپکے مددگاروں اور آپکے سامنے شہید ہونے والے آپکے دوستوں میں سے قرار دے۔ اے میرے آقا اے

اَّمَانِ، صَلَواتُ اللّهِ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ بَیْتِکَ، ہذَا یَوْمُ الْجُمُعَۃِ وَھُوَ یَوْمُکَ الْمُتَوَقَّعُ

صاحب زماں(ع) آپ پر اور آپ(ع) کے اہل خاندان(ع) پر خدا کی رحمتیں ہوں ۔ یہ جمعہ کا دن ہے جوآپ(ع) کا دن ہے جس میں

فِیہِ ظُھُورُکَ، وَالْفَرَجُ فِیہِ لِلْمُؤْمِنِینَ عَلَی یَدَیْکَ، وَقَتْلُ الْکافِرِینَ بِسَیْفِکَ، وَٲَ نَا یَا

آپ(ع) کے ظہور اور آپ(ع) کے ذریعے مومنوں کی آسودگی کی توقع ہے اور آپ کی تلوار سے کافروں کے قتل کی امید ہے اور اے

مَوْلایَ، فِیہِ ضَیْفُکَ وَجَارُکَ، وَٲَ نْتَ یَا مَوْلایَ کَرِیمٌ مِنْ ٲَوْلادِ الْکِرَامِ، وَمَٲْمُورٌ

میرے آقا میں آج کے دن آپ کی پناہ میں ہوں اور اے میرے آقا آپ کریم اور کریموں کی اولاد سے ہیں اور مہمان رکھنے اور

بِالضِّیافَۃِ وَالْاِجَارَۃِ فَٲَضِفْنِی وَٲَجِرْنِی صَلَوَاتُ اللّهِ عَلَیْکَ وَعَلَی ٲَھْلِ بَیْتِکَ الطَّاھِرِینَ

پناہ دینے پر مامور ہیں بس مجھے مہمان کیجیے اور پنا ہ دیجئے پر اور آپ کے پاک و پاکیز ہ اہل خاندان پرخدا تعالیٰ کی رحمتیں ہوں ۔


شعبان میں ہر روز وقت زوال اور پندرہ شعبان کی رات کو امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی صلوات پڑھے:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَۃِ النُّبُوَّۃِ، وَمَوضِعِ الرِّسالَۃِ، وَمُخْتَلَفِ

اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو نبوت کا شجر رسالت کا مقام، فرشتوں کی آمد و رفت

الْمَلائِکَۃِ وَمَعْدِنِ الْعِلْمِ، وَاَھْلِ بَیْتِ الْوَحْیِ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

کی جگہ، علم کے خزانے اور خانہ وحی میں رہنے والے ہیں اے معبود! محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما

الْفُلْکِ الْجارِیَۃِ فِی اللُّجَجِ الْغامِرَۃِ، یَٲْمَنُ مَنْ رَکِبَہا، وَیَغْرَقُ مَنْ تَرَکَھَا، الْمُتَقَدِّمُ

جو بے پناہ بھنوروں میں چلتی ہوئی کشتی ہیں کہ بچ جائے گا جو اس میں سوار ہوگا اور غرق ہوگا جو اسے چھوڑ دے گا ان سے آگے نکلنے والا

لَھُمْ مارِقٌ، وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْھُمْ زاھِقٌ، وَاللاَّزِمُ لَھُمْ لاحِقٌ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ

دین سے خارج اور ان سے پیچھے رہ جانے والا نابود ہو جائے گا اور ان کے ساتھ رہنے والا حق تک پہنچ جائے گا اے معبود! محمد(ص)

وَآلِ مُحَمَّدٍ الْکَھْفِ الْحَصِینِ، وَغِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکِینِ، وَمَلْجَاََ الْہارِبِینَ

و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پائیدار جائے پناہ اور پریشان و بے چارے کی فریاد کو پہنچنے والے، بھاگنے اور ڈرنے والے کیلئے جائے

وَعِصْمَۃِ الْمُعْتَصِمِینَ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلاۃً کَثِیرَۃً تَکُونُ

امان اور ساتھ رہنے والوں کے نگہدار ہیں اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما بہت بہت رحمت کہ جوان کے لیے وجہ خوشنودی

لَھُمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَدائً وَقَضائً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَقُوَّۃٍ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ

اور محمد(ص) وآل محمد(ع) کے واجب حق کی ادائیگی اور اس کے پورا ہونے کاموجب بنے تیری قوت و طاقت سے اے جہانوں کے پروردگار

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبِینَ الْاَ بْرارِ الْاَخْیارِ الَّذِینَ اَوْجَبْتَ

اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ تر، خوش کردار اور نیکو کار ہیںجن کے حقوق تو نے واجب کیے

حُقُوقَھُمْ وَفَرَضْتَ طاعَتَھُمْ وَوِلایَتَھُمْ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ

اور تو نے ان کی اطاعت اور محبت کو فرض قرار دیا ہے اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میرے دل کو اپنی

قَلْبِی بِطاعَتِکَ وَلاَ تُخْزِنِی بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنِی مُواساۃَ مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْہِ مِنْ رِزْقِکَ

اطاعت سے آباد فرما اپنی نافرمانی سے مجھے رسوا و خوار نہ کر اور جس کے رزق میں تو نے تنگی کی ہے مجھے اس سے ہمدردی کرنے کی

بِما وَسَّعْتَ عَلَیَّ مِنْ فَضْلِکَ، وَنَشَرْتَ عَلَیَّ مِنْ عَدْلِکَ، وَاَحْیَیْتَنِی تَحْتَ ظِلِّکَ

توفیق دے کیونکہ تو نے اپنے فضل سے میرے رزق میں فراخی کی مجھ پر اپنے عدل کوپھیلایا اور مجھے اپنے سائے تلے زندہ رکھا ہے

وَھذا شَھْرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذِی حَفَفْتَہُ مِنْکَ بِالرَّحْمَۃِ وَالرِّضْوانِ الَّذِی

اور یہ تیرے نبی(ص) کا مہینہ ہے جو تیرے رسولوں کے سردار ہیں یہ ماہ شعبان جسے تو نے اپنی رحمت اور رضامندی کے ساتھ گھیرا ہوا ہے

کانَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّی اللّهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ یَدْاَبُ فِی صِیامِہِ وَقِیامِہِ فِی لَیالِیہِ

یہ وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں صلوٰۃ و قیام کیا کرتے تھے

وَاَیَّامِہِ بُخُوعاً لَکَ فِی إکْرامِہِ وَ إعْظامِہِ إلی مَحَلِّ حِمامِہِ اَللّٰھُمَّ فَاَعِنَّا عَلَی

تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے اے معبود! پس اس مہینے میں ہمیں

الاسْتِنانِ بِسُنَّتِہِ فِیہِ، وَنَیْلِ الشَّفاعَۃِ لَدَیْہِ اَللّٰھُمَّ وَاجْعَلْہُ لِی شَفِیعاً مُشَفَّعاً،

ان کی سنت کی پیروی اور ان کی شفاعت کے حصول میں مدد فرما اے معبود؛ آنحضرت(ص) کو میرا شفیع بنا جن کی شفاعت مقبول ہے اور

وَطَرِیقاً إلَیْکَ مَھْیَعاً وَاجْعَلْنِی لَہُ مُتَّبِعاً حَتّی اَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیامَۃِ عَنِّی راضِیاً، وَعَنْ

میرے لیے اپنی طرف کھلا راستہ قرار دے مجھے انکا سچا پیروکار بنادے یہاں تک کہ میں روز قیامت تیرے حضور پیش ہوں جبکہ تو مجھ

ذُ نُوبِی غاضِیاً، قَدْ اَوْجَبْتَ لِی مِنْکَ الرَّحْمَۃَ وَالرِّضْوانَ، وَاَ نْزَلْتَنِی دارَ الْقَرارِ

سے راضی ہو اور میرے گناہوں سے چشم پوشی کرے ایسے میں تو نے میرے لیے اپنی رحمت اور خوشنودی لازم کر رکھی ہو اور مجھے

وَمَحَلَّ الْاَخْیارِ ۔

دارالقرار اور صالح لوگوں کے ساتھ رہنے کی مہلت دے


مہدویت اور انتظار فرج رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں

دین اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتٰی ہندوستان کے ادیان میں،بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ ترلوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارتدی ہے، یہ سب کچھ دراصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمعروشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئےپرامید رہنے کے لئے بیان ہوا ہے۔ تمام ادیان الہی میں امام مہدی علیہ السلام سےمتعلق عقیدہ کلی طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن اسلام میں یہ عقیدہ مسلمہ عقائد میںہے، جبکہ اسلامی مکاتب فکر میں شیعہ مکتب فکر ایسا ہے جو مہدویت کے موضوع کو واضحمصداق اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مکمل شخصی اور خاندانی خصوصیات کے ساتھپیش کرتا ہے، جو معتبر شیعہ و غیر شیعہ روایات سے ماخوذ ہے۔
رھبر انقلاب اسلامیآیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہاس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقتمیں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت"مہدی موعود " کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کےانتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے، حجت خدا کی صورت میں لوگوںکے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے، لوگوں کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے، لوگوں کو دیکھرہا ہے ان کے ساتھ ہے، ان کے دردوں کو، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے۔ انسانوںمیں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو، بعض اوقاتناآشنا اور ناشناس کے طور پر ان کی زیارت کرتے ہیں، وہ موجود ہے، ایک حقیقی اور مشخصو معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے، جس کے ماں باپ معلوم ہیں، لوگوں کےدرمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کیخصوصیات میں سے ہے۔ وہ لوگ بھی، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیںکرتے، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہکو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو، بہت سی روشن و واضح، مضبوطدلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے، پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیمانسان، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیاتکے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی بنیادیکتابوں میں بھی جو شیعوں کی نہیں ہیں، اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ رہبر انقلاباسلامی فرماتے ہیں مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ اسلامی آثار میںشیعی کتابوں میں حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور کے انتظار کو "انتظارفرج" سے تعبیر کیا گیا ہے، اس فرج کا کیا مطلب ہے؟ فرج یعنی گرہیں کھولنےوالا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتاہے؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو، کہیں کوئی گرہ پڑ گئی ہو، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئیہو، کسی مشکل کی موجودگی میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہےکہ کوئی اپنی تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے، کوئی ہو جو مشکلوں اورمصیبتوں کے عقدے باز کر دے۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے۔
رھبر انقلاب اسلامیآیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظمیں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتبپر یقین رکھنے والا، حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو، انسانی زندگی کی الجھیہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسانکے کام میں جو گرہ پڑی ہوئی ہے، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اوررکاوٹ برطرف ہو جائے، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اورگرہ پڑ جانے کا نہیں ہے، امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہکھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کے لئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو پریشانی سےنجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ جات بخشیں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں جو کچھ آج ہو رہا ہے اور اس وقتپایا جاتا ہے، انسانی (ہاتھوں اور ذہن کا بنایا ہوا) یہ غیر منصفانہ نظام، یہانسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں، بے شمار دلوں کو گمراہکیا جا رہا ہے، بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں، اس صورت حالکے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے، جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے۔ انتظار فرج کامطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کر دینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اورانسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کر دی گئی ہے،انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے۔
رھبرانقلاب اسلامیآیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظرڈالیں، وہی چیز جو حضرت ولی عصر (ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں) کے ظہور سے متعلقروایات میں ہیں، آج دنیا پر حکمراں ہیں، دنیا کا ظلم و جور سے بھر جانا، آج دنیاظلم و ستم سے بھر گئی ہے، ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے متعلق روایتوں،دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئتظلما و جورا" " ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئیہو گی، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہو گا، اسی طرح خداوند عالمان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کر دے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصافحکمراں نظر آئے گا۔ وہ وقت یہی ہے، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے، آجانسانی زندگی عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے (اورظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے، آج عالم بشریتظلم کے غلبہ کے سبب، انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہمشکلات میں گرفتار ہے۔ آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوںلاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگی گزاررہے ہیں، حتٰی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسرپیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم، جس نے ایک محدود ماحول میں، ایک معین و مشخص دائرےمیں عدل و انصاف کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر دباؤ پوریدنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں۔ اس انتظار فرج کا مفہوم،مختلف ادوار میں انسانی زندگی کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں۔ آج ہم کو فرج یعنیگرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظرہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑ دے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم ومقہور بنا رکھا ہے، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کر دے اور انسانوں کی زندگیایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کر دے، تاکہ تمام انسانوں کو عدل و انصافکا احساس ہو، یہ ایک آگاہ و باخبر زندہ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے، ہر وہانسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو، صرف اپنی زندگی میں مست نہہو، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو،قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی، انتظار کا یہی مطلب ہے۔انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبولصورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا، چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولیخدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر امان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ وارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی۔ لہذا خود کو ایکجانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالاتمیں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے۔ انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے، کسی طرح کی اصلاح کا اقدامنہ کرے، صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظرہیں۔ یہ تو انتظار نہ ہوا۔ انتظار کس کا ہے۔؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتیہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کاخاتمہ کر دے، حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگی میں عدل و انصاف کو حکمراں کردے، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنا دے، اس کام کی آمادگیہونی چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سےہے، عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرفایک قدم ہے، انتظار کا مطلب یہ ہے۔ انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے، انتظارتیاری اور آمادگی کو کہتے ہیں، اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں، خود اپنے گرد وپیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے، یہ خداوند متعال کی دی ہوئی نعمت ہےکہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصلکی ہے اور حقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے، انتظار فرج کا یہی مطلب ہے، انتظارفرج یعنی کمر کس لینا، تیار ہو جانا، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امامزمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا، وہ عظیمتاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہو گا وہ عدل و انصاف قائم کرنے، انسانیزندگی کو الہی زندگی بنانے اور خدا کی بندگی رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرجکا یہی مطلب ہے۔

رھبر انقلاب اسلامینے انتظار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک اور مقام پر فرمایا کہ انتظار کے بھی کچھلوازمات اور تقاضے ہیں جن میں سے ایک، انسان کا سماجی، باطنی اور طور پر اسکے لئے آمادہ ہونا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتظار کرنے والے شخص کوچاہئے کہ ہمیشہ اس دور کی ضروری خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھے جس کا وہ انتظار کررہا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے دور کیخصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی حکومت کا زمانہ در حقیقت توحید، عدل وانصاف، حق و صداقت، اخلاص و بے لوثی اور عبودیت خداوندی کا دور ہو گا، بنابریںانتظار کرنے والے افراد کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کریں اور موجودہحالت پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہ رہیں۔ رھبر انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ السلامکے عقیدے سے متعلق ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ میں اماممہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات کا ذکر کر کے انہیں کسی دوسرے شخص پر منطبقکرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمام باتیں غلط اور انحرافی ہیںکیونکہ ظہور کی علامتوں میں بعض غیر معتبر ہیں اور جو معتبر علامات ہیں ان کے لئےصحیح مصداق کی تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسطرح کی غلط بیانیوں سے مہدویت کی اصلی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے۔ بنابریں عامیانہقیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ مہدویت کے عقیدے کے سلسلے میں ایک ضروری کامماہرین اور اہل علم کے ذریعے دقیق عالمانہ تحقیق و مطالعے میں سرعت لانا اورعامیانہ، جاہلانہ، غیر معتبر اور حقائق سے عاری تخیلات پر مبنی باتوں سے گریز کرناہے۔

 


شیخ صدوق (رح) نے معتبرسند کیساتھ امام علی رضا علیہ السلام سے اور حضرت نے اپنے آباء طاہرین علیھمالسلام کے واسطے سے امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایکروز رسول اللہ(ص) نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہاری طرفرحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خداکے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جسکی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوںسے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایاہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میںتمهارا سانس لینا تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارےاعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔

پس تم اچھی نیت اور بریباتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدا ئے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تمکو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ جوشخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت اوربدانجام ہوگا اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنےفقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرواور رشتہداروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ جو نہ کہنیچاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوںکا سننا تمہارے لیے روا نہیں ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیمبچوں پر رحم کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں ،اپنے گناہوںسے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہبہترین اوقات ہیں جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جوبندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں وہ ان کو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتےہیں ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑیہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کےبوجھ سے دبی ہوئی ہیں تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو کیونکہ خدا نے اپنیعزت و عظمت کی قسم کھارکھی ہے کہ ا س مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوںکو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے ،اے لوگو! جو شخصاس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کوآزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔

آنحضرت(ص) کے اصحاب میںسے بعض نے عرض کی یا رسول (ص) اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے تب آپ(ص)نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا   ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سےبچا سکتے ہو۔ کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا جو اس سے کچھ زیادہ دینےکی توفیق نہ رکھتا ہو۔ اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق درست کرے تو حقتعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزاردے گا۔ جب کہ لوگوں کے پاؤںپھسل رہے ہوں گے۔

جو شخص اس مہینے میں اپنےغلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت کے ساتھ لے گااور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میںخدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکیاور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائےرکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنےسایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدا ئےتعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا۔ اور جو شخص اس ماہ میں اپنیواجب نمازیں ادا کرے توحق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کردے گا۔ جبکہ دوسرےلوگوں کے پلڑے ہلکے ہوںگے۔ جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے توخداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا، اے لوگو! بےشک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیںتم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں۔ پس خدائے تعالیٰ سے سوالکرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میں زنجیروں میں جکڑ دیاجاتا ہے۔ پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے .

شیخ صدوق (رح)نے روایت کیہے کہ جب ماہِ رمضان داخل ہوتا تو رسول اللہ تمام غلاموں کو آزاد فرمادیتے اسیروںکو رہا کردیتے اور ہر سوالی کو عطا فرماتے تھے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ رمضانمبارک خدائے تعالیٰ کا مہینہ ہے اور یہ سارے مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جسمیں آسمان جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئےجاتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادتسے بہتر ہے۔ پس اے انسانو! تمہیں سوچنا چاہیئے کہ تم اس مہینے کے رات دن کس طرحگزارتے ہو اور اپنے اعضائے بدن کو خدا کی نافرمانی سے کیونکر بچاسکتے ہو، خبردارکوئی شخص اس مہینے کی راتوں میں سوتا نہ رہے اور اس کے دنوں میں حق تعالیٰ کی یادسے غافل نہ رہے کیونکہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ماہِ رمضان میں دن کا روزہ افطارکرنے کے وقت اللہ تعالیٰ ایک لاکھ انسانوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور شبِجمعہ یا جمعہ کے دن ہر گھڑی میں خدائے تعالیٰ ایسے ہزاروں انسانوں کو آتشِ دوزخ سےرہائی بخشتا ہے جو دوزخی بن چکے ہوتے ہیں۔نیز اس مہینے کی آخری رات اور دن میں حقتعالیٰ اپنے اتنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جتنے کہ پورے رمضان میں آزادکرچکا ہے۔ پس اے عزیزو! توجہ کرو کہ مبادا یہ مبارک مہینہ تمام ہوجائے اور تمہاریگردن پر گناہوں کا بوجھ باقی رہ جائے اور جب روزہ دار اپنے روزوں کا اجر پارہے ہوںتو تم ان لوگوں میں گنے جاؤ جن کو محروم کیا جارہا ہو۔

 تمہیں تلاوتِ قرآن کرکے افضل وقت میں نمازیں بجالاکر دیگر عبادتوں میں سعی کرکے اور توبہ واستغفار کرکے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہیئے،کیونکہ امام جعفر صادق -سے روایت ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینے میں نہیں بخشا گیاتو وہ آیندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا سوائے اس کے کہ وہ عرفہ میں حاضر ہوجائے۔پس تمہیں ان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیئے جن کو خدائے تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔

یعنی حرام چیزوں سے روزہافطار نہیں کرناچاہیئے، اور تمہیں اس طرح رہنا چاہیئے جیسے امام جعفر صادق علیہالسلام نے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں آنکھوں بدن کےرونگٹوں اور جلد اور دوسرے سب اعضائ کو بھی روزہ دار ہونا چاہیئے یعنی ان کو حرامبلکہ مکروہ چیزوں اور کاموں سے بچائے رکھو۔ نیز فرمایا کہ تمہارا روزہ دار ہونے کادناس طرح کا نہ ہو جیسے تمہارا روزہ دار نہ ہونے کا دن تھا۔پھر فرمایا کہ روزہ صرفکھانے پینے سے رکنا نہیں۔ بلکہ حالتِ روزہ میں اپنی زبانوں کو جھوٹ سے اور آنکھوںکو حرام سے دور رکھو۔ روزے کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، کسی سے حسد نہرکھو۔ کسی کا گلہ شکوہ نہ کرو اور جھوٹی قسم نہ کھاؤ۔ بلکہ سچی قسم سے بھی پرہیزکرو، گالیاں نہ دو، ظلم نہ کرو، جہالت کا رویہ نہ اپناؤ۔ بیزاری ظاہر نہ کرو اور یادخدا اور نماز سے غفلت نہ برتو ۔ ہر وہ بات جو نہ کہنی چاہیئے۔ اس سے خاموشی اختیارکرو ، صبر سے کام لو ، سچی بات کہو برے آدمیوں سے الگ رہو بری باتوں، جھوٹ بولنے،بہتان لگانے، لوگوں سے جھگڑنے ، گلہ کرنے اور چغلی کھانے جیسی سب چیزوں سے پرہیزکرو ۔ اپنے آپ کو آخرت کے قریب جانو ۔ آخرت کے ثواب کی امید رکھو، آخرت کیلئے اچھےاعمال کا ذخیرہ تیار کرو۔

تمہیں خدا کے خوف میں اسطرح عاجز رہنا چاہیئے، جیسے وہ غلام کہ جو اپنے آقا سے ڈرتا ہے۔ اس کا دل رکا ہوااور جسم سہما ہوا ہوتا ہے۔ خدا کے عذاب سے ڈرو اور اس کی رحمت کی امید رکھو۔ اےروزہ دارو! تمہارے دل عیبوں سے تمہارے باطن مکر و فریب سے اور تمہارے بدن آلودگیوںسے پاک ہونی چاہیے۔ اﷲ کے سوا دوسرے خداؤں سے بیزاری اختیار کرو اور روزے کی حالتمیں اپنی محبت و نصرت کو اﷲ کیلئے خالص کرو۔ ہر وہ چیز ترک کردو جس سے خدا نے ظاہرو باطن میں روکا ہے خدا وند قہار سے ظاہر و باطن میں ایسا خوف رکھو جو خوف رکھنےکا حق ہے اور روزے کی حالت میں اپنا بدن اور روح خدا کے حوالے کردو اور اپنے دل کوصرف اس کی محبت اور یاد کیلئے یکسو کر لو اور اپنے جسم کو ہر اس چیز کیلئے فرمانبردار بناؤ جس کا خدا نے حکم دیا ہے ۔ اگر تم ان سب چیزوں پر عمل کر لو جو روزے کیلئےمناسب ہیں توپھر تم نے خدا کی فرمائشوں پر عمل کیا ہے اور جن چیزوں کا میں نےتذکرہ کیا ہے اگر ان میں سے کچھ کم کر دوگے تو تمہارے ثواب اور فضیلت میں کمیآجائے گی ۔

بے شک میرے والد بزرگوارنے فرمایاکہ:رسول اﷲ نے سنا کہ ایک عورت بحالت روزہ اپنی کنیز کو گالیاں دے رہی ہےتو حضرت (ص) نے کھانا منگوایا اور اس عورت سے کہا کہ یہ کھانا کھا لو ۔ اس نے عرضکی کہ میں روزے سے ہوں آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ یہ کس طرح کا روزہ ہے جبکہ تونےاپنی کنیز کو گالیاں دی ہیں ۔ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے ہی کا نام نہیں بلکہ حقتعالیٰ نے تو روزے کو تمام قبیح کاموں یعنی بد کرداری و بد گفتاری وغیرہ سے محفوظقرار دیا ہے پس اصل و حقیقی روزے دار بہت کم اور بھوکے پیاسے رہنے والے بہت زیادہہیں امیر المؤمنین -نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کے لئے اس میں بھوکا پیاسارہنے کے سوا کچھ نہیں اور کتنے ہی عبادت گزار ہیں جن کا حصہ ان میں سوائے بدن کیزحمت اور تھکن کے کچھ نہیں ہے ۔ کیا کہنا اس عقل مند کی ننید کا جو جاہل کی بیداریسے بہتر ہے جابر بن یزید نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ص لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ یَا جَابِرُ هَذَا شَهْر ُرَمَضَانَ مَنْ صَامَ نَهَارَهُ وَ قَامَ وِرْداً مِنْ لَیْلِهِ- وَ عَفَّبَطْنُهُ وَ فَرْجُهُ وَ كَفَّ لِسَانَهُ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَخُرُوجِهِ مِنَالشَّهْرِ قَالَ جَابِرٌ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَنَ هَذَا الْحَدِیثَفَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص یَا جَابِرُ وَ مَا أَشَدَّ هَذِهِ الشُّرُوط۔

رسول اﷲ نے جابر ابن عبداﷲ(رض) سے فرمایا: اے جابر! یہ رمضان مبارک کا مہینہ ہے ، جو شخص اس کے دنوں میںروزہ رکھے اور اس کی راتوں کے کچھ حصے میں عبادت کرے۔ اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرامسے بچائے رکھے اپنی زبان کو روکے رکھے تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح باہر آئے گا جیسےیہ مہینہ جلدی ختم ہو گیا ہے ۔ جناب جابر (رض) نے عرض کی یا رسول (ص) اﷲ! آپ(ص) نےبہت اچھی حدیث فرمائی ہے ، آپ(ص) نے فرمایا وہ شرطیں کتنی سخت ہیں جو میں نے روزےکیلئے بیان کی ہیں ۔

 


سحر کے اعمال   

 دعائے سحر کا پڑھنا؛

دعائے ابو حمزہ ثمالی کاپڑھنا؛

ہر روز کی دعائیں

اس دعا کا پڑھنا:اَللّهُمَّ رَبَّ شَهْرِ رَمَضانَ الَّذى اَنْزَلْتَ فیهِ الْقُرْآنَوَافْتَرَضْتَ على عِبادِكَ فیهِ الصِّیامَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍوَ ارْزُقْنى حَجَّ بَیْتِكَ الْحَرامِ فى عامى هذا وَ فى كُلِّ عامٍ وَ اغْفِرْلى تِلْكَ الذُّنُوبَ الْعِظامَ فَاِنَّهُ لا یَغْفِرُها غَیْرُكَ یا رَحْمنُ یاعَلاّمُ ۔

ترجمہ: خدایا ماه رمضانجس میں آپ نے قرآن نازل فرمایا اور اس مہینے میں اپنے بندوں پر روزہ واجب کیا محمداور ان کی آل پر درود و سلام بھیجھ اوراس سال اور ہر سال مجھے خانہ کعبہ کی زیارتنصیب فرما، اور میری ان گناہوں کو بخش دے جنہیں تیرے سوا کوی اور نہیں بخش سکتا اےبخشنے والے اور جانے والا۔

اس تسبیح کا پڑھما: ﴿۱﴾ سُبْحانَ اللّٰهِ بارِئِالنَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِكُلِّها، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّورِ، سُبْحانَ اللّٰهِفالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّ شَىْءٍ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ، سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ،سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ، سُبْحانَ اللّهِ السَّمِیعِ الَّذِى لَیْسَشَىْءٌ أَسْمَعَ مِنْهُ، یَسْمَعُ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ مَا تَحْتَ سَبْعِ أَرَضِینَ،وَیَسْمَعُ مَا فِى ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، وَیَسْمَعُ الْأَنِینَوَالشَّكْوىٰ، وَیَسْمَعُ السِّرَّ وَأَخْفىٰ، وَیَسْمَعُ وَساوِسَ الصُّدُورِ،وَلَا یُصِمُّ سَمْعَهُ صَوْتٌ.﴿۲﴾سُبْحانَ اللّٰهِ بارِئِ النَّسَمِ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِ كُلِّها، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِوَالنُّورِ، سُبْحانَ اللّٰهِ فالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ، سُبْحانَ اللّٰهِخالِقِ كُلِّ شَىْءٍ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ، سُبْحانَاللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ، سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ، سُبْحانَ اللّهِالْبَصِیرِ الَّذِى لَیْسَ شَىْءٌ أَبْصَرَ مِنْهُ، یُبْصِرُ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِمَا تَحْتَ سَبْعِ أَرَضِینَ، وَیُبْصِرُ مَا فِى ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ،لَاتُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ، وَهُوَ یُدْرِكُ الْأَبْصارَ، وَهُوَ اللَّطِیفُالْخَبِیرُ، وَلَا تُغْشِى بَصَرَهُ الظُّلْمَةُ، وَلَا یُسْتَتَرُ مِنْهُبِسِتْرٍ، وَلَا یُوارِى مِنْهُ جِدارٌ، وَلَا یَغِیبُ عَنْهُ بَرٌّ وَلَا بَحْرٌ،وَلَا یَكُنُّ مِنْهُ جَبَلٌ مَا فِى أَصْلِهِ وَلَا قَلْبٌ مَا فِیهِ، وَلَاجَنْبٌ مَا فِى قَلْبِهِ، وَلَا یَسْتَتِرُ مِنْهُ صَغِیرٌ وَلَا كَبِیرٌ، وَلَا یَسْتَخْفِىمِنْهُ صَغِیرٌ لِصِغَرِهِ، وَلَا یَخْفىٰ عَلَیْهِ شَىْءٌ فِى الْأَرْضِ وَلَافِى السَّماءِ، هُوَ الَّذِى یُصَوِّرُكُمْ فِى الْأَرْحامِ كَیْفَ یَشاءُلَاإِلٰهَ إِلّا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ.﴿۳﴾ سُبْحانَ اللّٰهِ بارِئِالنَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِكُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّورِ ، سُبْحانَ اللّٰهِفالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ،سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ، سُبْحانَ اللّهِ الَّذِى یُنْشِئُالسَّحابَ الثِّقالَ وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلائِكَةُ مِنْ خِیفَتِهِ، وَیُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَیُصِیبُ بِها مَنْ یَشاءُ ، وَیُرْسِلُ الرِّیاحَبُشْراً بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهِ ، وَیُنَزِّلُ الْماءَ مِنَ السَّماءِبِكَلِمَتِهِ ، وَیُنْبِتُ النَّباتَ بِقُدْرَتِهِ ، وَیَسْقُطُ الْوَرَقُبِعِلْمِهِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الَّذِى لَایَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ فِىالْأَرْضِ وَلَا فِى السَّماءِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلّافِى كِتابٍ مُبِینٍ.﴿۴﴾سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَ النَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِ كُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِوَالنُّورِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ فالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِخالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَا یُرىٰ ،سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ،سُبْحانَ اللّهِ الَّذِى یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثىٰ وَمَا تَغِیضُالْأَرْحامُ وَمَا تَزْدادُ وَكُلُّ شَىْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدارٍ عالِمُ الْغَیْبِوَالشَّهادَةِ الْكَبِیرُ الْمُتَعالِ سَواءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَوَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ لَهُمُعَقِّباتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ یَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِاللّٰهِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الَّذِى یُمِیتُ الْأَحْیاءَ وَیُحْیِى الْمَوْتىٰ وَیَعْلَمُمَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَیُقِرُّ فِى الْأَرْحامِ مَا یَشاءُ إِلىٰأَجَلٍ مُسَمّىً.﴿۵﴾سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَ النَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِ كُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّورِ، سُبْحانَ اللّٰهِ فالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ،سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّشَىْءٍ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِمِدادَ كَلِماتِهِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ، سُبْحانَ اللّهِمالِكِ الْمُلْكِ ، تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ ، وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْتَشاءُ ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشاءُ ، وَتُذِلُّ مَنْ تَشاءُ ، بِیَدِكَ الْخَیْرُ ،إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِیرٌ ، تُولِجُ اللَّیْلَ فِى النَّهارِ ،وَتُولِجُ النَّهارَ فِى اللَّیْلِ ، تُخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَیِّتِ ،وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ، وَتَرْزُقُ مَنْ تَشاءُ بِغَیْرِ حِسابٍ.﴿۶﴾ سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَالنَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِكُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّورِ ، سُبْحانَ اللّٰهِفالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ،سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ، سُبْحانَ اللّهِ الَّذِى عِنْدَهُ مَفاتِحُالْغَیْبِ لَایَعْلَمُها إِلّا هُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِوَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلّا یَعْلَمُها وَلَا حَبَّةٍ فِى ظُلُماتِالْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یابِسٍ إِلّا فِى كِتابٍ مُبِینٍ.﴿۷﴾ سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَالنَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِكُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّورِ ، سُبْحانَ اللّٰهِفالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَا یُرىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ،سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الَّذِى لَا یُحْصِىمِدْحَتَهُ الْقائِلُونَ ، وَلَا یَجْزِى بِآلائِهِ الشَّاكِرُونَ الْعابِدُونَ ،وَهُوَ كَما قالَ وَفَوْقَ مَا نَقُولُ ، وَاللّٰهُ سُبْحانَهُ كَما أَثْنىٰعَلَىٰ نَفْسِهِ ، وَلَا یُحِیطُونَ بِشَىْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلّا بِما شاءَوَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا یَؤُودُهُ حِفْظُهُما وَهُوَالْعَلِىُّ الْعَظِیمُ.﴿۸﴾سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَ النَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِ كُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِوَالنُّورِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ فالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِخالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَا یُرىٰ ،سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ،سُبْحانَ اللّهِ الَّذِى یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِى الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْها، وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّماءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیها ، وَلَا یَشْغَلُهُ مَا یَلِجُفِى الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْها عَمَّا یَنْزِلُ مِنَ السَّماءِ وَمَا یَعْرُجُفِیها ، وَلَا یَشْغَلُهُ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّماءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیها عمَّایَلِجُ فِى الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْها ، وَلَا یَشْغَلُهُ عِلْمُ شَىْءٍعَنْ عِلْمِ شَىْءٍ ، وَلَا یَشْغَلُهُ خَلْقُ شَىْءٍ عَنْ خَلْقِ شَىْءٍ ، وَلَاحِفْظُ شَىْءٍ عَنْ حِفْظِ شَىْءٍ ، وَلَا یُساوِیهِ شَىْءٌ ، وَلَا یَعْدِلُهُشَىْءٌ ، لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَىْءٌ ، وَهُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ.﴿۹﴾ سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَالنَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِكُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّوْرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِفالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ،سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ، سُبْحانَ اللّهِ فاطِرِ السَّمَاواتِوَالْأَرْضِ جاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلاً أُولِى أَجْنِحَةٍ مَثْنىٰ وَثُلاثَوَرُباعَ یَزِیدُ فِى الْخَلْقِ مَا یَشاءُ إِنَّ اللّٰهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍقَدِیرٌ ، مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَمَا یُمْسِكْفَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ.﴿۱۰﴾ سُبْحانَ اللّٰهِ بارِىَالنَّسَمِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ الْمُصَوِّرِ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ الْأَزْواجِكُلِّها ، سُبْحانَ اللّٰهِ جاعِلِ الظُّلُماتِ وَالنُّورِ ، سُبْحانَ اللّٰهِفالِقِ الْحَبِّ وَالنَّوىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ خالِقِ كُلِّ شَىْءٍ ، سُبْحانَاللّٰهِ خالِقِ مَا یُرىٰ وَمَا لَایُرىٰ ، سُبْحانَ اللّٰهِ مِدادَ كَلِماتِهِ ،سُبْحانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ، سُبْحانَ اللّهِ الَّذِى یَعْلَمُ مَا فِىالسَّماواتِ وَمَا فِى الْأَرْضِ مَا یَكُونُ مِنْ نَجْوىٰ ثَلاثَةٍ إِلّا هُوَرابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُمْ وَلَا أَدْنىٰ مِنْ ذٰلِكَ وَلَاأَكْثَرَ إِلّا هُوَ مَعَهُمْ أَیْنَما كانُوا ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِما عَمِلُوا یَوْمَالْقِیامَةِ إِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِیمٌ.

100 مرتبہ:سُبْحانَ الضّآرِّ النّافِعِ سُبْحانَ الْقاضی بالْحَقِّ سُبْحانَ الْعَلِیالاْعْلی سُبْحانَهُ وَبِحَمْدِهِ سُبْحانَهُ وَتَعالی پڑھنا ؛ ترجمہ: منزّه ہےکافروں و ضرر اور مومنوں کو نفع پہنچانے والا، منزہ ہے بر حق حکم کرنے والا، اس کیذات منزہ اور برتر ہے، وہ منزہ ہے اور تمام تعریفیں اسی کیلئے ہے اور اس کی ذاتمنزہ و برتر ہے۔

ہر نماز کے بعد کی دعائیں 

 ہر نماز کے بعد ان دعاوںکو پڑھا جائے: یا عَلِی یا عَظیمُ یا غَفُورُ یا رحیمُ أنْتَالرَّبُّ العظیمُ الَذی لیس کَمِثْلِهِ شَی ءٌ و هُوَ السَّمیعُ الْبَصیرُ وَ هذاشَهْرٌ عَظَّمْتَهُ و کَرَّمْتَهُ و شَرَّفْتَهُ و فَضَّلْتَهُ عَلَی الشُّهُورِ وهُوَ الشَّهْرُ الَّذی فَرَضْتَ صِیامَهُ عَلَی و هُوَ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذیأَنْزَلْتَ فِیهِ الْقُرانَ هُدی لِلنّاسِ و بَیناتٍ مِنَ الْهُدی و الْفُرْقانِ وجَعَلْتَ فیهِ لَیلَةَ الْقَدْرِ و جَعَلْتَها خَیرا من أَلْفِ شَهْرٍ فَیاذَالْمَنِّ و لا یمَنُّ عَلَیکَ مُنَّ عَلَی بِفَکاکِ رَقَبَتی مِنَ النّارِ فیمَنْتَمُنُّ عَلَیه وَ أَدْخِلْنی الْجَنَّة بِرَحْمتِکَ یا أرْحَم الرّاحِمِینَ۔

 ترجمہ: اے عظمت والی ذات، اے بزرگوار، اے بخشنےوالی اور مہربان ذات! آپ ہی پروردگار ہے اور تجھ سا کوئی نہیں ہے اور اپنے مخلوقاتکی گفتار اور کردار سے مکمل آشنا ہے۔ یہ مہینہ جسے تو نے عظمت اور بزرگی دی ہے اوردوسرے مہینوں پر اسے کرامت اور شرف دی ہے اور اس مہینے میں میرے اوپر روزہ واجب کیاہے۔

یہ وہ مہینہ ہے جس میں تونے قرآن کو لوگوں کی ہدایت، اور ہدایت کے راستے کی نشاندہی اور حق کو باطل سےممتاز کرنے کیلئے نازل کیا ہے اور شب قدر کو اس مہینے میں قرار دیا ہے اور اس راتکو ہزار مہینوں پر فوقیت دی ہے۔ پس اے منت والی ذات خدا! تجھ پر کسی کی منت نہیںہے ان تمام لوگوں کے درمیان جن کو تو نے عطا کی ہے میرے اوپر بھی منت کرکے مجھےجہنم کی آگ سے نجات دے اور ہمیشہ رہنے والی بہشت میں مجھے پہنچا دے تیری بے پایانرحمت کا واسطہ اے سب سے زیادہ مہربان ہستی۔

اَللّهُمَّ اَدْخِلْ عَلیاَهْلِ الْقُبُورِ السُّرُورَ، اَللَّهُمَّ اَغْنِ کُلَّ فَقیرٍ، اَللّهُمَّاَشْبِعْ کُلَّ جائعٍ، اَللّهُمَّ اکْسُ کُلَّ عُرْیانٍ، اَللّهُمَّ اقْضِ دَینَکُلِّ مَدینٍ، اَللّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوبٍ، اَللّهُمَّ رُدَّ کُلَّ غَریبٍ،اَللّهُمَّ فُکَّ کُلَّ اَسیرٍ، اَللّهُمَّ اَصْلِحْ کُلَّ فاسِدٍ مِنْ اُمُورِالْمُسْلِمینَ، اَللّهُمَّ اشْفِ کُلَّ مَریضٍ، اَللّهُمَّ سُدَّ فَقْرَنابِغِناکَ، اَللّهُمَّ غَیرْ سُوءَ حالِنا بِحُسْنِ حالِکَ، اَللّهُمَّ اقْضِعَنَّا الدَّینَ، وَاَغْنِنا مِنَ الْفَقْرِ، اِنَّکَ عَلی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ۔

 ترجمہ: اے خداوند کریم اہل قبور پر خوشی اورشادمانی نچھاور کرے، فقیروں کو بے نیاز کر دے، بھوکوں کو سیر فرما، برہنوں کو لباسپہنا، مقروض کا قرض ادا فرما، سوگواروں کے دلوں کو شاداب فرما، خدایا ہر مسافر کواپنے وطن میں با سلامت پہنچا دے، ہر اسیر کو رہائی دے، خدایا مسلمانوں کے کاموں میںفساد برپا کرنے والوں کی اصلاح فرما، بیماروں کو شفا عطا فرما، اے خدایا اپنیتوانگری سے ہماری فقر کو دور فرما، ہمارے برے کاموں کو اپنی نیک صفات کے توسط سےتغییر دے، خدایا ہمارا قرض ادا فرما، اور ہماری نیازمندی کو بے نیازی میں تبدیلفرما تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

 اَللّهُمَّ ارْزُقْنی حَجَّ بَیتِکالْحَرامِ فِی عامی هذا وَفی کلِّ عامٍ ما اَبْقَیتَنی فی یسْرٍ مِنْک وَعافِیةٍ،وَسَعَةِ رِزْقٍ، وَلا تُخْلِنی مِنْ تِلْک الْمواقِفِ الْکریمَةِ، وَالْمَشاهِدِالشَّریفَةِ، وَزِیارَةِ قَبْرِ نَبِیک صَلَواتُک عَلَیهِ وَآلِهِ، وَفی جَمیعِحَوائِجِ الدُّنْیا وَالاَْخِرَةِ فَکنْ لی، اَللّهُمَّ اِنّی اَساَلُک فیما تَقْضیوَتُقَدِّرُ مِنَ الاََمْرِ الَْمحْتُومِ فی لَیلَةِ الْقَدْرِ، مِنَ الْقَضاءِالَّذی لا یرَدُّ وَلا یبَدَّلُ، اَنْ تَکتُبَنی مِنْ حُجّاجِ بَیتِک الْحَرامِ،الْمَبْرُورِ حَجُّهُمْ، الْمَشْکورِ سَعْیهُمْ، الْمَغْفُورِ ذُنُوبُهُمْ، الْمُکفَّرِعَنْهُمْ سَیئاتُهُمْ، واجْعَلْ فیما تَقْضی وَتُقَدِّرُ، اَنْ تُطیلَ عُمْری،وَتُوَسِّعَ عَلَی رِزْقی، وَتُؤدِّی عَنّی اَمانَتی وَدَینی آمینَ رَبَّ الْعالَمین۔

 ترجمہ: اے معبود! اس سال اور آئندہ پوری زندگیمجھے اپنے بیت الحرام ﴿کعبہ﴾ کے حج کی توفیق فرما جب تک تو مجھے زندہ رکھے اپنیطرف سے آسانی ، آرام اور وسعت رزق نصیب فرما مجھے ان بزرگی و کرامت والے مقاماتاور مقدس پاکیزہ مزارات اور اپنے نبی(ص) کریم کے سبز گنبد کی زیارت کرنے سے محرومنہ رکھ ان پر اور ان کی آل پر تیری رحمت ہو اور دنیا و آخرت سے متعلق میری تمامحاجات پوری فرما دے اے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ شب قدر میں تو جو یقینیامور طے فرماتا ہے اور جو محکم فیصلے کرتا ہے کہ جن میں کسی قسم کی رد و بدل نہیںہوتی ان میں میرا نام اپنے بیت اﷲ ﴿کعبہ﴾ کا حج کرنے والوں میں لکھ دے کہ جن کا حجتمہیں منظور ہے اور ان کی سعی مقبول ہے ان کے گناہ بخشے گئے اور ان کی خطائیں مٹادی گئیں ہیں اور اپنی قضائ و قدر میں میری عمر طولانی میری روزی و رزق کشادہ فرمااور مجھے ہر امانت اور ہر قرض ادا کرنے کی توفیق دے ایسا ہی ہو اے جہانوں کے پالنےوالے۔

افطار کے وقت 

کھجور کے ساتھ افطارکرنا؛

افطاری اور صدقہ دینا؛

افطار کے وقت اس دعا کاپڑھنا: اَللّهُمَّ لَک صُمْتُ وَعَلی رِزْقِک اَفْطَرْتُ وَعَلَیک تَوَکلْتُترجمہ: خدایا تیری خاطر میں نے روزہ رکھا اور تیری دسترخوان پر میں میں افطار کیااور تجھ پر ہی اعتماد کرتا ہوں۔

بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ لَکصُمْنَا وَ عَلَی رِزْقِک أَفْطَرْنَا فَتَقَبَّلْ [فَتَقَبَّلْهُ] مِنَّا إِنَّکأَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ۔

ترجمہ: خدا کے نام کےساتھ،خدایا تیری خاطر میں نے روزہ رکھا اور تیری دسترخوان پر میں میں افطار کیا،خدایا ہم سے اس روزے کو قبول فرما، چونکہ تو سنے والا اور جاننے والا ہے۔

پہلا نوالا کھاتے ہوئےکہا جائے: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ یاوَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ اغْفِرْ لِی ۔

ترجمہ: اس خدا کے نام سےجس کی رحمت وسیع اور اس کی مہربانی ہمیشہ کیلئے ہے اے بے نہایت مغفرت کرنے والا ہمیںبخش دے۔

ہر رات کے اعمال       

 دعائے افتتاح پڑھنا؛

100 مرتبہسورہ دخان پڑھنا؛

ہر رات دو رکعت نمازپڑھنا جس کی ہر رکعت میں حمد اور توحید تین مرتبہ اور جب سلام پھیرے تو یہ پڑھاجائے : سُبْحانَ مَنْ هُوَ حَفیظٌ لا یغْفُلُ سُبحانَمَنْ هُوَ رَحیمٌ لا یعْجَلُ سُبْحانَ مَنْ هُوَ قاَّئِمٌ لا یسْهُو سُبْحانَ مَنْهُوَ دائِمٌ لا یلْهُو سُبْحانَک سُبْحانَک سُبْحانَک یا عَظیمُ اغْفِرْ لِیالذَّنْبَ الْعَظیمَ.

اس دعا کا پڑھنا:اللَّهُمَّ رَبَّ شَهْرِ رَمَضَانَ الَّذِی أَنْزَلْتَ فِیهِ الْقُرآنَ وَافْتَرَضْتَ عَلَى عِبَادِكَ فِیهِ الصِّیَامَ ارْزُقْنِی حَجَّ بَیْتِكَالْحَرَامِ فِی هَذَا الْعَامِ وَ فِی كُلِّ عَامٍ وَ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَالْعِظَامَ فَإِنَّهُ لا یَغْفِرُهَا غَیْرُكَ یَا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِكْرَامِ ۔

ترجمہ: اے اللہ! اے ماہرمضان کے پروردگار کہ جس میں تو نے قرآن کریم نازل فرمایا اور اپنے بندوں پر اسماہ میں روزے رکھنا فرض کیے محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھے اسیسال اپنے بیت الحرام ﴿کعبہ﴾ کا حج نصیب فرما اور آئندہ سالوں میں بھی اور میرے ابتک کے تمام گناہان کبیرہ معاف کردے کیونکہ سوائے تیرے انہیںکوئی معاف نہیں کرسکتااے زیادہ رحم والے اے زیادہ علم والے۔

اس دعا کا پڑھنا: اللَّهُمَّبِرَحْمَتِک فِی الصَّالِحِینَ فَأَدْخِلْنَا وَ فِی عِلِّیینَ فَارْفَعْنَا وَبِکأْسٍ مِنْ مَعِینٍ مِنْ عَینٍ سَلْسَبِیلٍ فَاسْقِنَا وَ مِنَ الْحُورِ الْعِینِبِرَحْمَتِک فَزَوِّجْنَا وَ مِنَ الْوِلْدَانِ الْمُخَلَّدِینَ کأَنَّهُمْلُؤْلُؤٌ مَکنُونٌ فَأَخْدِمْنَا وَ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَ لُحُومِ الطَّیرِفَأَطْعِمْنَا وَ مِنْ ثِیابِ السُّنْدُسِ وَ الْحَرِیرِ وَ الْإِسْتَبْرَقِفَأَلْبِسْنَا وَ لَیلَةَ الْقَدْرِ وَ حَجَّ بَیتِک الْحَرَامِ وَ قَتْلا فِیسَبِیلِک فَوَفِّقْ لَنَا وَ صَالِحَ الدُّعَاءِ وَ الْمَسْأَلَةِ فَاسْتَجِبْلَنَا [یا خَالِقَنَا اسْمَعْ وَ اسْتَجِبْ لَنَا] وَ إِذَا جَمَعْتَ الْأَوَّلِینَوَ الْآخِرِینَ یوْمَ الْقِیامَةِ فَارْحَمْنَا وَ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِفَاکتُبْ لَنَا وَ فِی جَهَنَّمَ فَلا تَغُلَّنَا وَ فِی عَذَابِک وَ هَوَانِکفَلا تَبْتَلِنَا وَ مِنَ اَّقُّومِ وَ الضَّرِیعِ فَلا تُطْعِمْنَا وَ مَعَالشَّیاطِینِ فَلا تَجْعَلْنَا وَ فِی النَّارِ عَلَی وُجُوهِنَا فَلا تَکبُبْنَا[تَکبَّنَا] وَ مِنْ ثِیابِ النَّارِ وَ سَرَابِیلِ الْقَطِرَانِ فَلا تُلْبِسْنَاوَ مِنْ کلِّ سُوءٍ یا لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ بِحَقِّ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَفَنَجِّنَا ۔

ترجمہ: اے معبود ! اپنیرحمت سے ہمیں نیکوکاروں میں داخل فرما جنت علیین میں ہمارے درجے بلند فرما ہمیںچشمہ سلسبیل کے خوشگوار جام سے سیراب فرما اپنی مہربانی سے حوران جنت کو ہماری بیویاںبنا اور ہمیشہ جوان رہنے والے لڑکے جو گویا چھپے موتی ہیں انہیں ہماری خدمت پر لگاجنت کے میوے اور وہاں کے پرندوں کا گوشت ہمیں کھلا اور ہمیں سندس ابریشم اور چمکیلےکپڑوں کے بنے ہوئے لباس پہنا ہمیں شب قدر عطا کر اپنے بیت اﷲ ﴿کعبہ﴾ کے حج کی توفیقدے اور اپنی راہ میں شہادت نصیب کر دے ہماری نیک دعاؤں اور اچھی حاجتوں کو پورافرما دے اور جب قیامت کے روز تو اگلے پچھلوں کو اکٹھا کرے تو ہم پر رحم فرما ہمارےلئے جہنم سے خلاصی لاز می کردے ہمیں اس میں نہ ڈال ہمیں اپنے عذاب اور ذلت میں نہپھنسا اور ہمیں تھوہر اور زہریلی گھاس نہ کھلا اور ہمیں شیطانوں کا ہم نشین نہ بنااور جہنم میں ہمیں چہروں کے بل نہ لٹکا ہمیں آتشی کپڑے اور قطران کے پیراہن نہپہنا اور اے وہ کہ نہیں کوئی معبود مگر تو ہی ہے نہیں کوئی معبود مگر تو ہے کےواسطے ہمیں بچا۔



اللہ کا مہینہ:

قال رسول الله‏ صلى‏ الله ‏علیه ‏و‏آله: شَعبانُ شَهری، و شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللهِ۔

شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 20 ،44

الأمالی للصدوق: ص 38 ، 71

تحف العقول: ج 419

الإقبال:  ج3 ص293

روضة الواعظین: ص441

دعائم الإسلام: ج1 ص 283

بحارالأنوار: ج 97 ص68

قال رسول الله صلى‏ الله ‏علیه ‏و‏آله: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللهِ، و شَهرُ شَعبانَ شَهری؛ شَعبانُ المُطَهِّرُ، و رَمَضانُ المُكَفِّرُ۔

رمضان کا مہینہ اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے۔ شعبان پاک کرنے والا اور رمضان گناہوں کو ڈھانپنے والا ہے۔

كنز العمّال: ج 8 ص466

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه‏ و‏آله: رَمَضانُ شَهرُ اللهِ، و هُوَ رَبیعُ الفُقَراءِ۔

رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ فقراء کی بہار کا مہینہ ہے۔

ثواب الأعمال: ص 5 ، 84

النوادر للأشعری: ص17

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 37 ، 58

الجعفریّات: ص 58

النوادر للراوندی: ص 134

بحارالأنوار:  ج97 ص 75

الإمام علیّ علیه‏السلام: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ الله‏ِ، و شَعبانُ ‏شَهرُ رَسولِ ‏الله صلى‏الله‏علیه‏و‏آله، و رَجَبٌ شَهری۔

رمضان اللہ کا مہینہ ہے شعبان پیغمبر کا اور رجب میرا مہینہ ہے۔

المقنعة: ص 373

مسارّ الشیعة: ص 56

مصباح المتهجّد: ص 797

ضیافت الہی کا مہینہ:

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه‏ و‏آله ـ فی وَصفِ شَهرِ رَمَضانَ ـ : هُوَ شَهرٌ دُعیتُم فیهِ إلى ضِیافَةِ اللهِ، و جُعِلتُم فیهِ مِن أهلِ كَرامَةِ اللهِ، أنفاسُكُم فیهِ تَسبیحٌ، و نَومُكُم فیهِ عِبادَةٌ، .

پیغمبر اکرم (ص) نے ماہ رمضان کی تعریف میں فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں ضیافت الہی پر دعوت دی گئی ہے اس میں تمہاری سانسیں تسبیح اور تمہاری نیندیں عبادت ہیں۔ اس میں تمہارا عمل مقبول ہے اور تمہاری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 61 ، 77

الأمالی للصدوق: ص 4 ، 84

عیون أخبار الرضا: ج 1 ص 295

الإقبال: ج1 ص 25

بحارالأنوار: ج 96 ص 356

قال رسول الله صلى‏ الله‏ علیه ‏و‏آله: إذا كانَ یَومُ القِیامَةِ یُنادِی المُنادی: أینَ أضیافُ اللّه‏ِ؟ فَیُؤتى بِالصّائِمینَ . فَیُحمَلونَ عَلى نُجُبٍ مِن نورٍ، و عَلى رُؤوسِهِم تاجُ الكَرامَةِ، و یُذهَبُ بِهِم إلَى الجَنَّةِ۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جب قیامت ہو گی تو ایک منادی ندا دے گا: کہاں ہیں اللہ کے مہمان ؟ پس روزے داروں کو لایا جائے گا ۔۔۔ انہیں بہترین سواریوں پر سوار کیا جائے گا اور ان کے سروں پر تاج سجایا جائے گا اور انہیں بہشت میں لے جایا جائے گا۔

مستدرك الوسائل: ج 4 ص22

قال الامام علیّ علیه‏السلام ـ مِن خُطبَتِهِ فی أوَّلِ یَومٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ: أیُّهَا الصّائِمُ، تَدَبَّر أمرَكَ؛ فَإِنَّكَ فی شَهرِكَ هذا ضَیفُ رَبِّكَ، اُنظُر كَیفَ تَكونُ فی لَیلِكَ و نَهارِكَ؟ و كَیفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصی رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّیلِ نائِما و بِالنَّهارِ غافِلاً؛ .

امام علی علیہ السلام نے ماہ رمضان کے پہلے دن خطبے میں فرمایا: اے روزہ دارو! اپنے امور میں تدبر کرو، کہ تم اس مہینہ میں اللہ کے مہمان ہو دیکھو کہ تمہاری راتیں اور دن کیسے ہیں؟ اور کیسے تم اپنے اعضاء و جوارح کو اپنے پروردگار کی معصیت سے محفوظ رکھتے ہو؟ دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم رات کو سو جاو اور دن میں اس کی یاد سے غافل رہو۔ پس یہ مہینہ گزر جائے گا اور گناہوں کا بوجھ تمہاری گردنوں پر باقی رہ جائے گا۔ اور جب روزے دار اپنی جزا حاصل کریں گے تو تم سزا پانے والوں میں سے ہو گے۔ اور جب انہیں انکا مولا انعام سے نوازے گا تو تم محروم ہو جاو گے اور جب انہیں خدا کی ہمسائگی نصیب ہو گی تو تمہیں دور بھگا دیا جائےگا۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 108 ، 101

قال الإمام الباقر علیه‏السلام: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ رَمَضانَ، وَالصّائِمونَ فیهِ أضیافُ اللّه‏ِ و أهلُ كَرامَتِهِ، مَن دَخَلَ عَلَیهِ شَهرُ رَمَضانَ فَصامَ نَهارَهُ و قامَ وِردا مِن لَیلِهِ وَاجتَنَبَ ما حَرَّمَ الله‏ُ عَلَیهِ، دَخَلَ الجَنَّةَ بِغَیرِ حِسابٍ۔

ماہ رمضان، ماہ رمضان، اس میں روزہ دار اللہ کے مہمان اور اس کے کرم کے سزاوار ہیں۔ جس شخص پر ماہ رمضان وارد ہو اور وہ روزہ رکھے اور رات کے ایک حصے میں اللہ کی عبادت کرے نماز پڑھے اور جو کچھ اللہ نے اس پر حرام کیا ہےاس سے پرہیز کرے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو گا۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 123 ، 130

تمام مہینوں کا سردار:

قال رسول الله صلى‏ الله ‏علیه‏ و‏آله: شَهرُ رَمَضانَ سَیِّدُ الشُّهورِ۔

 ماہ رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے۔

شرح الأخبار : ج 1 ص 223

الفضائل ، ابن شاذان: ص 125

بحارالأنوار: ج40 ص54

فضائل الأوقات للبیهقی: ص 89 ، 205

شُعَب الإیمان: ج3 ص 314

كنز العمّال: ج8 ص 482

قال الإمام الرضا علیه‏السلام: إذا كانَ یَومُ القِیامَةِ زُفَّتِ الشُّهورُ إلَى الحَشرِ یَقدُمُها شَهرُ رَمَضانَ عَلَیهِ مِن كُلِّ زینَةٍ حَسَنَةٍ، فَهُوَ بَینَ الشُّهورِ یَومَئِذٍ كَالقَمَرِ بَینَ الكَواكِبِ، فَیَقولُ أهلُ الجَمعِ بَعضُهُم لِبَعضٍ: وَدِدنا لَو عَرَفنا هذِهِ الصُّوَرَ! .

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو تمام مہینوں کو م میں لایا جائے گا اس حال میں کہ ماہ رمضان زیورات سے آراستہ سب سے آگے ہو گا۔ اس دن ماہ رمضان بقیہ مہینوں میں ایسے ہو گا جیسے چاند باقی ستاروں کے درمیان ہے۔ پس م میں لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: ہم ان چہروں کو پہچاننا چاہتے تھے۔

خدا کی جانب سے ایک منادی ندا دے گا : اے مخلوق خدا! یہ مہینوں کے چہرے ہیں کہ جو اس وقت سے اللہ کی بارگاہ میں موجود تھے جب سے زمین و آسمان خلق ہوئے کہ ان کی تعداد بارہ ہے اور انکا سردار ماہ رمضان ہے۔ میں نے اسے ظاہر کیا ہے تاکہ اس کی برتری کو دیگر مہینوں پر دکھلا سکوں تا کہ وہ مردوں اور عورتوں میں سے جو میرے بندے ہیں انکی شفاعت کرے اور میں اس کی شفاعت قبول کروں ۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 110 ، 102

شب قدر ماہ رمضان میں ہے:

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و‏آله: قَد جاءَكُم شَهرُ رَمَضانَ؛ شَهرٌ مُبارَكٌ . فیهِ لَیلَةُ القَدرِ خَیرٌ مِن ألفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَها فَقَد حُرِمَ۔

ماہ رمضان تمہارے پاس آ چکا ہے جو برکتوں والا مہینہ ہے۔۔۔ کہ جس میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ محروم وہ شخص ہے جو اس رات محروم رہ جائے۔

تهذیب الأحكام: ج4 ص 152

الأمالی للمفید: ج1 ص301 و ج2 ص 112

الأمالی للطوسی: ج 74 ص 108و ص 149، 246 ،

بحارالأنوار: ج 97 ص 17

سنن النسائی:  ج4 ص129،

مسند ابن حنبل: ج 3 ص8

سُئِلَ رَسولُ الله‏ِ صلى‏ الله ‏علیه ‏و‏آله عَن لَیلَةِ القَدرِ، فَقالَ: هِیَ فی كُلِّ رَمَضانَ۔

 پیغمبر خدا (ص) سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شب قدر ہر رمضان میں پائی جاتی ہے۔

سنن أبی داود: ج 2 ص54

السنن الكبرى: ج4 ص506

مسند ابن حنبل عن أبی مرثد: سَأَلتُ أباذَرٍّ قُلتُ: كُنتَ سَأَلتَ رَسولَ الله صلى‏ الله ‏علیه‏ و‏آله عَن لَیلَةِ القَدرِ؟ قالَ: أنَا كُنتُ أسأَلَ النّاسِ عَنها یعنی أشدّ الناس مسألةً عنها. قالَ: قُلتُ: یا رَسولَ اللهِ، أخبِرنی عَن لَیلَةِ القَدرِ أ فی رَمَضانَ هِیَ أو فی غَیرِهِ؟ قالَ: بَل هِیَ فی رَمَضانَ.»

قالَ: قُلتُ: تَكونُ مَعَ الأَنبِیاءِ ما كانوا فَإِذا قُبِضوا رُفِعَت، أم هِیَ إلى یَومِ القِیامَةِ؟ قالَ: بَل هِیَ إلى یَومِ القِیامَةِ.

میں نے ابوذر سے پوچھا: کیا آپ نے رسول خدا(ص) سے شب قدر کےبارے میں معلوم کیا ہے؟

کہا: میں سب سے زیادہ اس کے سلسلے میں پوچھتا رہا ہوں۔

( جناب ابوذر نے کہا) میں نے رسول خدا (ص) سے پوچھا: اے رسول خدا (ص)! مجھے شب قدر کے بارے میں آگاہ کریں کہ کیا شب قدر رمضان میں ہے یا کسی اور مہینے میں؟

فرمایا: ماہ رمضان میں۔

میں نے کہا: کیا جب تک پیغمبر زندہ ہیں تب تک ہے یا انکی رحلت کے بعد بھی شب قدر قیامت تک ماہ رمضان میں رہے گی؟

فرمایا: شب قدر قیامت تک باقی رہے گی۔

مسند ابن حنبل: ج8 ص117

المستدرك على الصحیحین: ج1 ص603

السنن الكبرى: ج4 ص505


1۔ خدا کی مہمانی کا مفہوم:

خدا کی مہمانی عام مہمانیوں سے بہت مختلف ہے۔ کیونکہ خدا نے ماہ مبارک رمضان میں ہمیں دعوت دی ہے۔ یہ دعوت کچھ چیزوں کو ترک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرنا، ذاتی انا پرستی کو ترک کرنا اور ظاہری اور باطنی شہوتوں کو ترک کرنا۔ یہ سب اس مہمانی میں شامل ہیں۔ دنیا میں موجود تمام برائیوں کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی مہمانی میں داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہوتا ہے تو اس سے صحیح طور پر  مستفید نہیں ہوتا۔

خدا کی اس دعوت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام انسانوں کیلئے ہے کیونکہ خداوند عالم کی رحمت اور بخشش نامحدود ہے۔ تمام انسانوں کیلئے دعوت نامہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

اے لوگو، خدا کا مہینہ تم تک آ پہنچا ہے، وہ مہینہ جس میں تم لوگوں کو خدا کی جانب سے دعوت دی گئی ہے۔

2۔ خدا کی مہمانی کے آداب:

ہر مہمانی کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور یہ مہمانی اگر خدا کے حضور میں ہو تو اسکے آداب بھی خاص ہوتے ہیں۔ خدا کی مہمانی کے آداب کو درج ذیل عناوین میں بیان کیا جا سکتا ہے:

ا۔ نفسانی خواہشات کو ترک کرنا:

قرآن اور احادیث میں نفسانی خواہشات کی پیروی کو انسان کی تمام خطاؤں اور مصیبتوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: "نفسانی خواہشات کو "ھوی" اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اپنی پیروی کرنے والے کو پستی اور سقوط کی طرف لے جاتی ہیں۔ لہذا پستی سے بچنے کیلئے نفسانی خواہشات کی مخالفت انتہائی ضروری ہے۔

اگرچہ نفسانی خواہشات کی مخالفت ایک انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہے لیکن ممکن ہے۔ اس راستے میں انسان کو خدا سے مدد مانگنی چاہیے۔ نفس کے خلاف جہاد کا بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے کیونکہ اس مہینے میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ شعبانیہ کے آخر میں فرماتے ہیں:

شیاطین اس مہینے میں قید کر دیئے جاتے ہیں، پس تم لوگ خدا سے دعا مانگو کہ ان شیاطین کو تم پر مسلط نہ کرے۔

امام زین العابدین علیہ السلام رمضان المبارک کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: سلام ہو تم پر اے دوست کہ تم نے شیاطین پر قابو پانے میں میری مدد کی اور میرا راستہ آسان کر دیا۔

ب۔ ماہ مبارک رمضان سے غفلت نہ برتنا:

اکثر انسان خدا کی نعمتوں سے غافل ہیں لہذا ان سے صحیح طور پر استفادہ بھی نہیں کر پاتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو " کفور " اور " کفار " جیسے القاب سے نوازا ہے۔ اس بری خصلت کے حامل افراد نعمت زائل ہو جانے کے بعد اسکی عظمت کو جانتے ہیں اور پھر سوائے حسرت کے کچھ انکے ہاتھ نہیں آتا۔ بے شک خدا کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک رمضان ہے۔ صرف خدا کے خاص بندے ہی اس مہینے کی عظمت سے واقف ہیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول رمضان المبارک کے وداع کی دعا میں یوں بیان ہوا ہے:

شکر اس خدا کا جس نے اپنی رضا کا ایک راستہ اپنا مہینہ یعنی رمضان المبارک کو قرار دیا ہے، روزے، اسلام اور پاکیزگی کا مہینہ، اے خدا محمد اور انکی اولاد پر درود بھیج اور ہمیں ماہ رمضان کی فضیلت کو سمجھنے اور اسکے احترام کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرما۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ رمضان المبارک شروع ہونے پر خدا سے عرض کرتے تھے اے خدایا رمضان المبارک آ پہنچا۔ اسی طرح خود امام صادق علیہ السلام بھی ہمیشہ رمضان المبارک شروع ہونے پر فرماتے تھے: خدایا، رمضان المبارک جس میں تو نے قرآن کو نازل فرمایا ہے آ پہنچا ہے۔

بزرگ عالم دین مرحوم شوشتری امام صادق علیہ السلام کی سیرت میں فرماتے ہیں: امام صادق علیہ السلام ان الفاظ سے خدا کو یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ رمضان المبارک شروع ہو گیا ہے بلکہ خدا کے حضور عرض کرنا چاہتے تھے کہ اے خدایا میں رمضان المبارک کے شروع ہونے سے آگاہ ہوں اور اس سے غافل نہیں ہوں۔

ج۔ مہمانی کے مہینے میں خدا کا شکر ادا کرنا:

شکر گزاری ایک انتہائی اچھی خصوصیت ہے جس پر قرآن اور احادیث میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ لہذا ماہ مبارک رمضان میں خدا کی جانب سے دعوت نامہ پانے والے افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے اس عظیم نعمت پر خالق متعال کا شکر ادا کریں۔

ابن عباس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: اگر تم لوگ رمضان المبارک کی فضیلت کو جان لیتے تو خدا کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے۔

د۔ رمضان المبارک کے احترام کو مدنظر رکھنا:

بعض روایات میں نقل ہوا ہے: کچھ گناہوں کی سزا رمضان المبارک کے احترام کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کئی برابر ہو جاتی ہے۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کا احترام اور اسکے حق کا خیال رکھیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام ایک اور دعا میں فرماتے ہیں: خدایا، کس قدر خوش بخت ہے وہ انسان جو تیری خاطر ماہ مبارک رمضان کے احترام کا خیال رکھتا ہے۔

رمضان المبارک کا احترام یہ ہے کہ اس مہینے میں انسان خدا کی معصیت نہ کرے، اگر کسی وجہ سے اسکا روزہ نہیں ہے تو سب کے سامنے کھانے پینے سے پرہیز کرے اور خدا کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرے۔


قرآن اور ماہ مبارک رمضان:

قرآن مجید کی آیات میں ماہ مبارک رمضان اور فریضہ روزہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

1-  روزے کی تشریع:

قرآن مجید روزے کی تشریع اور وجوب کے بارے میں ایک آیت میں صراحت سے فرماتا ہے:

یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون،

اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو۔

سورہ بقرہ، آیت 3

2- روزے کے چند اہم مسئلے:

"ایاماً معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھو لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون"

گنتی کے چند دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کر لے، اور اسکی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت حاصل کرے وہ اس کیلئے بہترین ہے، تمہارے حق میں بہترین کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم یہ جان سکو۔

سورہ بقرہ، آیت 4

اس آیت سے روزے کے جو چند احکام اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

الف: معین اور مخصوص ایام میں روزے کا واجب ہونا،

ب: معذور افراد کیلئے روزے کی قضا،

3-  ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات:

قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 5 میں اس ماہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے:

"شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضا او علی سفر فعدۃ ایام اخر یرید اللہ بکم الیسر و لا یریدکم العسر و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ علی ما ھداکم و لعلکم تشکرون"

ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ روزہ رکھے، ہاں جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ تم روزوں کی تکمیل کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بزرگی بیان کرو، شاید تم شکرگزار ہو جاؤ۔

اس آیت کریمہ میں ماہ مبارک رمضان میں روزوں کے وجوب کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اسی بنا پر اسے دوسرے مہینوں پر برتری حاصل ہے۔ سب سے پہلی خاصیت یہ ہے کہ قرآن، جو ہدایت اور انسانی رہبری کی کتاب ہے اور جس نے اپنے قوانین اور احکام کی صحیح روش کو غیرصحیح راستے سے جدا کر دیا ہے اور جو انسانی سعادت کا دستور لے کر آئی ہے، اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ روایات میں ہے کہ تمام عظِم آسمانی کتابیں جیسے تورات، انجیل، زبور، صحیفے اور قرآن مجید اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔

روایات معصومین علیہم السلام اور ماہ مبارک رمضان:

1- روزے کی اہمیت:

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"بنی الاسلام علی خمس دعائم علی الصلوۃ و اکوۃ و الصوم و الحج و الولایۃ"

 اسلام پانچ بنیادوں پر قائم ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت۔

بحار الانوار، ج 76، ص 257،

2- روزہ داروں کی فضیلت:

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"نوم الصائم عبادۃ و صمتہ تسبیح و عملہ متقبل و دعاءہ مستجاب عند الافطار دعوۃ لا ترد"

روزے دار کی نیند عبادت اور اسکی خاموش تسبیح اور اسکا عمل قبول شدہ ہے، اسکی دعا مستجاب ہو گی اور افطار کے وقت اسکی دعا رد نہیں کی جائے گی۔

بحار الانوار، جلد 96، ص 253

3- روزے کی حکمت:

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا:

"فرض اللہ الصیام تثبیتاً للاخلاص"

خداوند متعال نے روزے کو اس لیے واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اخلاص کو محکم کرے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 368

4- روزہ بدن کی زکات:

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"لکل شی زکوۃ و زکوۃ الابدان الصیام"

ہر چیز کی زکات ہے اور انسانوں کے بدن کی زکات روزہ ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 246

5-  روزہ عبادت خالص:

حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا:

"الصوم عبادۃ بین العبد و خالقہ لا یطلع علیھا غیرہ و کذلک لا یجاری عنھا غیرہ"

روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذا خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 20، ص 296

6- روزہ آتش جہنم کی ڈھال:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"الا اخبرک بابواب الخیر؟ الصوم جنۃ من النار"

کیا میں تمہیں نیکی کے دروازوں کی خبر نہ دوں؟ اسکے بعد فرمایا: روزہ آتش جہنم کی ڈھال ہے۔

روضۃ المتقین، ج 3، ص 228

7- روزہ محبوب پیامبر اکرم (ص):

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"ان من الدنیا احب ثلاثۃ اشیاء الصوم فی الصیف و الضرب بالسیف و اکرام الضیف"

میں دنیا میں سے تین چیزوں سے محبت کرتا ہوں، موسم گرما کا روزہ، راہ خدا میں تلوار چلانا اور مہمان کا احترام کرنا۔

مواعظ العددیہ، ص 76

8- زندگی کی مشکلات میں روزے سے مدد حاصل کرنا:

"و استعینوا فی الصبر و الصلوۃ" کے ذیل میں امام معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں: "الصبر الصوم اذا نزلت بالرجل الشدۃ او النازلۃ فلیصم"

آیہ شریفہ کے ذیل میں امام معصوم علیہ السلام سے منقول ہے: صبر سے مراد روزہ ہے، جب بھی زندگی میں تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو روزہ رکھو اور اس سے مدد طلب کرو۔

بحار الانوار، ج 96، ص 254

9-  برترین روزہ:

حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

"صوم القلب خیر من صیام اللسان و صوم اللسان خیر من صیام البطن"

دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے برتر ہے۔

غررالحکم، ج 1، ص 417

10- حقیقی روزہ:

مولای متقیان حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

الصیام اجتناب المحارم کما یمتنع الرجل من الطعام و الشراب،

روزہ محرمات الہی سے پرہیز کا نام ہے جیسا کہ انسان کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 294

11- بے ارزش روزہ:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

"لا صیام لمن عصی الامام و لا صیام لعبد ایق حتی یرجع و لا صیام لامراۃ ناشزۃ حتی تتوب و لا صیام لولد عاق حتی یبر"

چند لوگوں کا روزہ صحیح نہیں: جو شخص امام معصوم علیہ السلام کی نافرمانی کرے، وہ غلام جو اپنے آقا سے بھاگ جائے، وہ عورت جو اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کرے، وہ فرزند جو والدین کا عاق ہو مگر یہ کہ غام واپس آ جائے اور عورت توبہ کر لے اور فرزند نیک بن جائے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 294

12- برترین اجر و ثواب:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

"الصوم لی و انا اجزی بہ"

روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا اجر و ثواب دوں گا۔

روضۃ المتقین، ج 3، ص 225

13- شیطان کے چہرے کا سیاہ ہونا:

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

الصوم یسود وجھہ الشیطان،

روزہ شیطان کے چہرے کو سیاہ کر دیتا ہے۔

روضۃ المتقین، ج 3، ص 227

14- روزہ اور تندرستی:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"اغزوا تغنموا و صوموا تصحوا سافروا تستغنوا"

جنگ و جہاد کرو اور غنیمت حاصل کرو، روزہ رکھو تاکہ سلامت رہو اور سفر کرو تا کہ بے نیاز اور غنی ہو جاؤ۔

بحار الانوار، ج 62، ص 294

15- روزہ اور مغفرت:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"یا جابر ھذا شھر رمضان من صام نھارہ و قام وردا من لیلۃ و عف بطنہ و فرجہ و کف لسانہ خرج من ذنوبہ کخروجہ من الشھر فقال جابر یا رسول اللہ ما احسن ھذا الحدیث فقال رسول اللہ یا جابر و ما اشد ھذا الشروط"

اے جابر، یہ ماہ رمضان کا مہینہ ہے، جس نے اس ماہ میں روزہ رکھا، رات دعا اور عبادت میں گزاری، پیٹ اور شرم گاہ کی عفت کا خیال رکھا اور زبان کو قابو میں رکھا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل گیا جیسے ماہ رمضان سے نکل گیا۔ جابر نے عرض کی یا رسول اللہ یہ حدیث کس قدر اچھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر ان شروط پر عمل کرنا اور انکی رعایت کرنا بھی کس قدر مشکل ہے۔

فروع کافی، ج 4، ص 87

16- فقراء کے ساتھ ہمدردی:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"انما فرض اللہ عزوجل لیستوی الغنی و الفقیر۔۔۔۔۔۔۔ و ان یذیق الغنی مس الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع"

خدا نے مسلمانوں پر روزہ واجب کیا ہے تا کہ فقیر اور غنی برابر ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔ اور خدا نے روزے کے ذریعے اغنیا کو بھوک و پیاس کی سختی اور درد کا ذائقہ چکھانے کا ارادہ کیا ہے تا کہ وہ ضعفاء اور بھوکے پیاسے لوگوں پر رحم کریں۔

وسائل الشیعہ، ج 7، ص 3

17- روزہ اور شہوات نفسانی کا خاتمہ:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔۔۔ فاالصوم یمیت مراد النفس و شھوۃ الطبع فیہ صفاء القلب و طھارۃ الجوارح و عمارۃ الظاھر و الباطن و الشکر علی النعم و الاحسان الی فقراء و زیادۃ التضرع و الخشوع و البکاء و حبل الالتجاء الی اللہ و سبب انکسار الشھوۃ و تخفیف الحساب و تضعیف الحسنات و فیہ من الفوائد ما لا یحصی"

رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ خواہشات نفسانی اور طبیعت کی شہوت کو کمزور کرتا ہے، قلب کی پاکیزگی، بدن کے اعضاء کی صفائی کا باعث بنتا ہے اور انسان کے ظاہر و باطن کو آباد کرتا ہے۔ نیز نعمت کے شکر، فقرا پر احسان، اور پروردگار کی بارگاہ میں تضرع اور خشوع اور گریہ و زاری کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح خدا کی محکم رسی سے تمسک اور شہوت کے ختم ہونے اور حساب کتاب میں تخفیف اور نیکی کے دو برابر ہونے کے علاوہ بے شمار حسنات و فوائد کا موجب بنتا ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 254

- ماہ مبارک رمضان کا بہترین عمل:

جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کی فضیلت میں ایک خطبہ بیان فرما رہے تھے تو حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا: ماہ مبارک رمضان میں بہترین عمل سا ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:

"یا اباالحسن افضل الاعمال فی ھذا الشھر الورع عن محارم اللہ"

اے ابوالحسن، اس ماہ مبارک میں بہترین عمل محرمات الہی کی نسبت ورع اور تقوی اختیار کرنا ہے۔

وسائل الشیعہ، ج 10، ص 30


1- تربیتی اور اجتماعی اثرات:

وجود انسانی میں روزے کے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اس کا اخلاقی پہلو اور تربیتی فلسفہ ہے۔ روح انسانی کو لطیف تر بنانا، انسان کے ارادے کو قوی کرنا اور انسانی مزاج میں اعتدال پیدا کرنا روزے کے اہم فوائد میں سے ہے۔ روزے دار کیلئے ضروری ہے کہ حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اسکے قریب نہ جائے اور اسی طرح جنسی لذات سے چشم پوشی کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اسکے قبضے میں ہے اور ہوا و ہوس اور شہوات و خواہشات اسکے کنٹرول میں ہیں۔

حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی اور معنوی اثر ہے۔ وہ انسان جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہیں جب اسے بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ انکے پیچھے جاتا ہے۔ وہ درخت جو باغ میں نہر کے کنارے اگے ہوتے ہیں نازپروردہ ہوتے ہیں۔ وہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کر سکتے ہیں۔ ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر انہیں چند دن پانی نہ ملے تو پژمردہ ہو کر خشک ہو جائیں جبکہ وہ درخت جو پتھروں کے درمیان پہاڑوں اور بیابانوں میں اگتے ہیں انکی شاخیں شروع سے سخت طوفانوں، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریبان رہتی ہیں۔ ایسے درخت ہمیشہ مضبوط، سخت کوش اور سخت جان ہوتے ہیں۔

روزہ بھی انسان کی روح اور جان کے ساتھ یہی عمل کرتا ہے۔ روزہ وقتی پابندیوں کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلے میں طاقت بخشتا ہے۔ چونکہ روزہ سرکش طبائع و جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہذا اسکے ذریعے انسان کے دل پر نور ضیاء کی بارش ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانات سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ "لعلکم تتقون" ان تمام مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کیلئے ڈھال ہے۔

نہج البلاغہ میں عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام روزے کے بارے میں فرماتے ہیں:

"والصیام ابتلاء لاخلاص الخلق"

اللہ تعالی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔

نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر 252

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

"ان للجنۃ باباً یدعی الریان لا یدخل منھا الا الصائمون"

بہشت کا ایک دروازہ ہے جسکا نام ریان یعنی سیراب کرنے والا ہے۔ اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔

ترجمہ تفسیر نمونہ، ج 1، ص 443

2-  روزے کے معاشرتی اثرات:

روزہ انسانی معاشرے کیلئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور محروم افراد کی حالت زار کا احساس کر سکتے ہیں اور انکی مدد کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کر کے خداوند عالم صاحب قدرت لوگوں کو انکی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہو اور اگر یہ معاملہ حسی اور عینی پہلو اختیار کر جائے تو اسکا دوسرا اثر ہو۔ روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے۔ ایک مشہور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

"انما فرض اللہ الصیام لیستوی بہ الغنی و الفقیر ذلک ان الغنی لم یکن لیجد مس الجوع فیرحم الفقیر و ان الغنی کلما اراد شیئا قدر علیہ فاراد اللہ تعالی ان یسوی بین خلقہ و ان یذیق الغنی من الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع"

اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں انکے لئے فراہم ہوتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اسکے بندوں کے درمیان مساوات ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و رنج کا ذائقہ چکھائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔

وسائل الشیعہ، ج 7، باب 1

3- روزے کے طبی اثرات:

طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک [کھانے پینے سے پرہیز] بہت سی بیماریوں کے علاج کیلئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مشروح تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا لہذا مزاحم اور مجتمع چربیاں پیدا ہوتی ہیں یا اضافی شوگر کا باعث بنتا ہے۔ عضلات کا یہ اضافی مواد درحقیقت بدن میں ایک متعفن بیماری کے جراثیم کی پرورش کیلئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔

ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزے کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔ روزہ ان اضافی غلاضتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلا دیتا ہے۔ درحقیقت روزہ بدن کو صفائی شدہ مکان بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں روزے سے معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس سے ہاضمے کی مشینری کی سروس ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ انسانی بدن کی حساس ترین مشینری ہے جو سارا سال کام کرتی رہتی ہے لہذا اس کیلئے ایسا آرام بہت ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ احکام اسلامی کی رو سے روزے دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اس حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جا سکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جا سکیں۔

ایک روسی دانشور الکسی سوفرین لکھتا ہے: "روزہ ان بیماریوں کے علاج کیلئے خاص طور پر مفید ہے جو خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ، خارجی و داخلی قدیم پھوڑے، تپ دق، ٹی بی، اسکلیروز، نقرس، استسقار، جوڑوں کا درد، نوراستنی، عرق النساء، خراز، امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض گردہ، امراض جگر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ امساک اور روزے کے ذریعے علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ وہ بیماریاں جو انسانی بدن کے اصول سے مربوط ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوتی ہیں مثلاً سرطان، سفلین اور طاعون وغیرہ کیلئے بھی شفا بخش ہے۔


روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے- روزہ معدہ کو مختلف بیماریوں سے سالم اورمحفوظ رکھنے میں فوق العادہ تاثیر رکھتا ہے- روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرتا ہے -

پیغمبر اکرم (ص) اور روزہ:

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

المعدۃ بیت کل داء- والحمئۃ راس کل دواء-

معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہیزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے ) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے-

اور نیز آپ نے فرمایا:

صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا-

روزہ رکھو تا کہ صحت یاب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ-

اس لیے سفر اور تجارتی مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں لیجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔

حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا:

لکل شی ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصیام

ہر چیز کے لیے ایک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔

حضرت علی(ع) اور روزہ:

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

و مجاهدة الصیام فی الایام المفروضات ، تسكینا لاطرافهم و تخشیعا لابصارهم ، و تذلیلا لنفوسهم و تخفیفا لقلوبهم ، و اذهابا للخیلاء عنهم و لما فی ذلك من تعفیر عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصیام تذللا.

جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و س ملتا ہے- اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے- اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں-

1: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے:

حضرت علی (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق

روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے-

روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے- چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

2: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے:

امام علی (ع) نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب

روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔

امام رضا (ع) اور روزہ:

جب امام رضا (ع) سے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کی سختی کا مزہ چکھیں- اور اس کے بعد روزہ قیامت کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں- جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا:

واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع یوم القیامۃ و عطشہ-

اپنے روزہ کی بھوک اور پیاس کے ذریعے قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔

یہ یاد دہانی انسان کو قیامت کے لیے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے لیے مزید جد و جہد کرنے پر تیار کرتی ہے۔

امام رضا (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پیاس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے، اور اسی طرح سے روزہ کے ذریعے انسان میں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔

ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شریعت اسلامی اور احکام خداوندی نے شہوات کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے روزہ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانے اور بری صفات اور رذیلہ خصلتوں کو دور کرنے کے لیے روزہ کو واجب کیا ہے، البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں ہے، بلکہ روزہ یعنی " کف النفس" نفس کو بچانا- جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

روزہ ہر انسان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ بری بات منہ سے نہ نکالے اور بیہودہ کام انجام نہ دے-

پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شیطان کے فریبوں سے نجات دلاتاہے، اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گویا اس نے صرف بھوک اور پیا س کوبرداشت کیا ہے اور یہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔

 روزہ کیا ہے اور یہ کس کے لیے ہے ؟

ماه خداوند:

اَیُّھٰاالنّٰاسُ اِنَّہُ قَدْاَقْبَلَ اِلَیْکُمْ شَھْرُاللّٰہِ بِالْبَرَکَةِ وَالرَّحْمَةِ وَالْمَغْفِرَةِ،شَھْر ھُوَعِنْدَاللّٰہِ اَفْضَلُ الشُّھُورِ،وَاَیَّامُہُ اَفْضَلُ الاَیَّامِ وَ لَیٰالیِہِ اَفْضَلُ اللَّیٰالیِ وَسَاعٰاتُہُ اَفْضَلُ السّٰاعٰاتِ-وَ ھُوَ شَھْردُعیِتُمْ فِیْہِ اِلیٰ ضِیٰافَةِ اللّٰہِ۔

یعنی! ' 'اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ماہ خدا (ماہ مبارک رمضان ) تم سے قریب ہے جو اپنے ہمراہ برکت و رحمت و مغفرت لیے آ رہا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جو خدا کے نزدیک تمام مہینوں سے اعلی و افضل ہے اس کے دن تمام دنوں سے افضل ہیں ،اس کی راتیں تمام مہینوں کی راتوں سے برتر ہیں اور اس کے لمحات و ساعات تمام مہینوں کے لمحات و ساعات سے بہتر ہیں-یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم اللہ کی مہما ن نوازی میں مدعو کیے گئے ہو-

واضح ہے کہ جو اللہ کا مہمان بن جائے وہ یقیناً! بہرہ مند و فیضیاب ہوتا ہے، لہذا خداوند عالم نے یہ ارشاد فرمایا : اے صاحبان ِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تا کہ اس طرح تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔

سورہء بقرہ آیت 3

خالقِ اکبر نے روزے کی صورت میں صاحبان ایمان کو اپنی بارگاہ اہدیت میں آنے کی دعوت دی ہے تا کہ وہ اس سے بہرہ مند و فیضیاب ہو سکیں، کیونکہ روزہ تقرب پروردگار کا وسیلہ ہے ، روزہ اسلام کا بنیادی رکن ہے ، روزہ جہاد اکبر ہے ، روزہ بدن کی زکوٰة ہے ، روزہ امیر و غریب کے فرق کو مٹا دیتا ہے ، روزہ ہر مشکل میں مؤمن کا مددگار ہوتا ہے ، روزہ سے شیطان رو سیاہ ہوتا ہے ، روزہ بدن کی  معنوی پاکیزگی کا موجب ہے ، روزہ جسمانی صحت کا موجب ہے ، روزہ قبولیت اعمال کا وسیلہ ہے ، روزہ سینے کے وسواس کو دور کرتا ہے ، روزہ انسان کی خواہشات کی زنجیروں کو توڑ دیتا ہے ، روزہ برکات خداوندی و  رحمت الہی کے نازل ہونے کا سبب ہے ، روزہ عذاب جہنم اور دیگر خطرات کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے، روزہ انسان کے دائمی و ابدی دشمن ' ' نفس امارہ ' 'کو شکست دیتا ہے، روزہ شہوات نفسانی و خواہشات کے کمزور کرنے کا موجب ہے ، روزہ صرف اللہ ہی کے لیے اور وہی اس کی جزا دے گا ، روزہ منعم حقیقی کے انعامات و احسانات کا شکریہ ہے ، روزہ رکھنے سے حافظہ میں اضافہ ہوتا ہے ، روزہ داروں کی دعائیں مستجاب ہوتیں ، روزہ دار خداوند عالم کا مہمان ہوتا ہے ، روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو مشک سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے۔

روزے داروں پر فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں ، فرشتے روزہ داروں کے لیے دعا کرتے ہیں ، روزہ داروں کے چہروں سے ملائکہ اپنا بدن مس کرتے ہیں ، روزہ داروں کا سانس لینا تسبیح خدا شمار ہوتا ہے ، روزہ داروں کو اس کے عمل کی جزا کئی گناہ کر کے دی جاتی ہے ، روزے سے انسان کے اندر تقوی اور پرہیزگاری کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔

روزے سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، روزے سے انسان کے افعال حرکات میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے ، خداوند عالم نے بہشت کا ایک دروازہ روزہ داروں سے مخصوص کر رکھا ہے۔

معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ: جنگ تبوک میں اتنی شدت کی گرمی تھی کہ لوگ سایہ کو تلاش کر رہے تھے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے نزدیک تھا آنحضرت (ص)  کے قریب آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) !مجھے ایسے کام کی رہنمائی کردیں جو مجھے جہنم سے نکال کر جنت کی طرف لے جائے !

آنحضرت (ص) نے فرمایا : بڑا اچھا سوال کیا ہے . اگر تم یہ چاہتے ہی ہو تو سنو اے معاذ! بس خداوند عالم کی عبادت و پرستش کرو، اس کے مقابلہ میں کسی غیر کو اس کا شریک و ہمتا قرار نہ دو ، نماز کا قیام کرو، زکوٰة ِواجب کی ادائیگی کرو اور ماہ مبارک رمضان کا روزہ رکھو۔ اب اگر چاہو تو تمہیں ابواب ِخیر کی بھی خبر دے دوں !؟ میں نے عرض کیا: ہاں : یا رسول اللہ! فرمائیں، آنحضرت (ص) نے فرمایا:  روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کی سِپر ہے ، صدقہ معصیت پر پردہ پوشی کرتا ہے ، اور یاد الہی میں شب بیداری کرنا موجب رضایت پروردگار ہے۔

روزے کا منکر اور جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے روزے نہ رکھنے والا اس شخص کی طرح ہے جو خدا ، رسول (ص) اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے حکم کا منکر ہو اور ان کی معرفت نہ رکھتا ہو، لہذا ایسا منکرِ احکام الہی اور مغضوب خدا ہے، جو شخص اس ماہ مبارک سے فیض یاب نہیں ہوتا وہ شقی ترین انسان ہے، اسے مسلمان کہنا اور مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شیعوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور جرم عظیم ہے اس لیے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہمارے ہر حکم کو تسلیم کریں اور ہمارے دشمنوں سے عداوت رکھیں پس جو لوگ ایسے نہ ہوں وہ ہمارے شیعہ نہیں ہیں۔

اَلْلّٰہُمَّ اجْعَلْ صِیٰامِی فِیْہِ صِیٰامَ الصَّائِمِیْنَ وَ قِیٰامِی فِیْہِ قِیٰامَ الْقٰائِمِیْنَ وَ نَبِّھْنِی فِیْہِ عَنْ نَوْمَةِ الْغٰافِلِیْنَ وَھَبْ لِی جُرْمِی فِیْہِ یٰااِلٰہَ الْعٰالِمِیْنَ وَاعْفُ عَنِّی یٰاعٰافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ۔

خدایا! میرا روزہ اس میں روزہ داروں کے روزہ کی طرح قرار دے اور میری نماز، نماز گذاروں کی طرح قرار دے اور مجھ کو ہوشیار کر دے غافلوں کی نیند سے اور میرے گناہ کو بخش دے اے عالمین کے معبود ! اور مجھ کو معاف کر دے اے گنہ گاروں کے معاف کرنے والے !


یاأیّھاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون.

ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تا کہ شاید اس طرح تم متّقی بن جاؤ۔

خداوند متعال نے روزے کا فلسفہ تقوٰی کو قرار دیا ہے یعنی روزہ تم پر اس لیے واجب قرار دیا تا کہ تم متقی بن سکو، پرہیز گار بن سکو، اور پھر روایات میں اسے روح ایمان کہا گیا، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جس شخص نے ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا اس سے روح ایمان نکل گئی۔

یعنی روزے کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کا پتہ اسی فرمان سے چل جاتا ہے کہ روزے کے واجب قرار دینے کا مقصد ایمان کو بچانا ہے اور اسی ایمان کو بچانے والی طاقت کا دوسرا نام تقوٰی ہے جسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 3میں روزے کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔  

تو یہ تقوٰی کیا ہے جسے پروردگار عالم نے روزے کا فلسفہ اور اس کا مقصد قرار دیا ہے ؟ روایات میں تقوٰی کی تعریف میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں:

1- اطاعت پروردگار              2- گناہوں سے اجتناب         

3- دنیا سے دل نہ لگانا

رسول خدا (ص) فرماتے ہیں:

تمہارے لیے تقوٰی ضروری ہے اس لیے کہ ہر کام کا سرمایہ یہی تقوٰی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسا روزہ جو انسان کو گناہوں سے نہ بچا سکے اسے بھوک و پیاس کا نام تو دیا جا سکتا ہے مگر روزہ نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ روزہ کا مقصد اور اس کا جو فلسفہ ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ جس روزہ کا حکم دیا گیا تھا ہم نے وہ نہیں رکھا ، بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی کا روزہ ہے جبکہ خدا ایسی عبادت کو پسند ہی نہیں کرتا جو انسان خدا کی اطاعت کے بجائے اپنی مرضی سے بجا لائے ورنہ شیطان کو بارگاہ ربّ العزّت سے نکالے جانے کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا چونکہ اس نے عبادت سے تو انکار نہیں کیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

قلت یا رسول اللہ ! ما افضل الأعمال فی ھذا الشھر ؟ فقال یا ابا الحسن أفضل الأعمال فی ھذا الشّھر ، ألورع من محارم اللہ ۔عزّوجلّ۔

امیر المؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مہینہ میں سا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : اے ابو الحسن ! اس ماہ میں افضل ترین عمل گناہوں سے پرہیز یعنی تقوٰی الہی اختیار کرنا ہے۔

نیز مولائے کائنات (ع) فرماتے ہیں:

ماہ رمضان میں کثرت کے ساتھ دعا اور استغفار کرو اس لیے کہ دعا تم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے اور استغفار تمہارے گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے۔

آنحضرت (ص) نے فرمایا:

 من صام شھر رمضان فاجتنب فیہ الحرام والبھتان رضی اللہ عنہ و أوجب لہ الجنان۔

جو شخص ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور حرام کاموں اور بہتان سے بچے تو خدا اس سے راضی اور اس پر جنّت کو واجب  کر دیتا ہے۔

اور پھر ایک دوسری روایت میں فرمایا:

انّ الجنّة مشتاقة الی أربعة نفر : 1- الی مطعم الجیعان . 2- وحافظ اللّسان.  3- و تالی القرآن . 4- وصائم شھر رمضان.

جنّت چار لوگوں کی مشتاق ہے:

1- کسی بھوکے کو کھانا کھلانے والے

2- اپنی زبان کی حفاظت کرنے والے

3- قرآن کی تلاوت کرنے والے

4- ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے

روزے کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان حرام کاموں سے بچے اور کمال حقیقی کی راہوں کو طے کر سکے، رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نے تم پر روزے واجب قرار دیئے ہیں پس جو شخص ایمان اور احتساب کی خاطر روزہ رکھے تو وہ اسی طرح گناہوں سے پاک ہو جائے گا جس طرح ولادت کے دن پاک تھا۔

ویسے بھی گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اور حرام کاموں سے دور رہنا مؤمن کی صفت ہے اس لیے کہ گناہ خود ایک آگ ہے جو انسان کے دامن کو لگی ہوئی ہو اور خدا نہ کرے اگر کسی کے دامن کو آگ لگ جائے تو وہ کبھی س سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے بجھا نہ لے اسی طرح عقل مند انسان وہی ہے جو گناہ کے بعد پشیمان ہو اور پھر سچی توبہ کر لے اس لیے کہ معصوم تو ہم میں سے کوئی نہیں ہے لہذا اگر خدا نہ کرے غلطی سے کوئی گناہ کر بیٹھے تو فورا اس کی بار گاہ میں آ کر جھکیں ، یہ مہینہ توبہ کے لیے ایک بہترین موقع ہے کیونکہ اس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ آئیں اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کریں، یقینا خدا قبول کرے گا۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں:

من صام شھر رمضان فحفظ فیہ نفسہ من المحارم دخل الجنّة،

جو شخص ماہ مبارک میں روزہ رکھے اور اپنے نفس کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے ، جنّت میں داخل ہو گا۔

امام صادق علیہ السلام روزہ کا ایک اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

خداوند متعال نے روزے اس لیے واجب قرار دیئے ہیں تا کہ غنی و فقیر برابر ہو سکیں، اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کر سکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لیے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا ہے اسے مل جاتی ہے، لہذا خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تا کہ اسکے دل میں غریب کے لیے نرمی پیدا ہو اور بھوکے پر رحم کرے۔

یہ ہے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک تحمل کرے تا کہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس ہو لیکن افسوس ہے کہ آج تو یہ عبادت بھی ی صورت اختیار کر گئی ہے بڑی بڑی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں جن میں غریبوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے بھوکے بچوں اور انہیں مزید اذیت دی جاتی ہے نہ جانے یہ کیسی اہل بیت علیہم السلام اور اپنے نبی کی پیروی ہو رہی ہے، اس لیے کہ دین کے ہادی تو یہ بتا رہے ہیں کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ غریبوں اور فقیروں کی مدد کرو جبکہ ہم علاقہ کے مالدار لوگوں کو دعوت کرتے ہیں اور باقاعدہ کارڈ کے ذریعہ سے کہ جن میں سے اکثر روزہ رکھتے ہی نہیں!!!

روزہ افطار کروانے کا بہت بڑا ثواب ہے لیکن کس کو ؟ روزہ دار اور غریب لوگوں کو، ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ان لوگوں کو افطار نہ کروائیں ان کو بھی کروائیں لیکن خدارا غریبوں کا خیال رکھیں جن کا یہ حق ہے، خداوند متعال ہمیں روزے کے فلسفہ اور اس کے مقصد سے آگاہ ہونے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس با برکت مہینہ میں غریبوں کی مدد کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین، و بحقّ محمد و آلہ الطاہرین و صلّی اللہ علی محمد و آل محمد و عجّل فرجھم.

آئیں ہم سب بھی مل کر یہی دعا کریں کہ اے پالنے والے ہمیں اگلے سال بھی اس مقدس مہینہ کی برکتیں نصیب کرنا لیکن اگر تو اپنی رضا سے ہمیں اپنے پاس بلا لے تو ایسے عالم میں اس دنیا سے جائیں کہ تو ہم سے راضی ہو اور ہمارے امام بھی ہم سے خوشنود ہوں۔


یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون۔

ترجمہ:اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ. 

رمضان کا مہینہ ایک مبارک اور باعظمت مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے، اور پچاس سال کا معنوی سفر ایک دن یا ایک گھنٹہ میں طے کر سکتا ہے۔ اپنی اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے، جو خداوند متعال نے انسان کو دی ہے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ایک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصیب ہوا اور یہ خود ایک طرح سے توفیق الہی ہے تا کہ انسان خدا کی بارگاہ میں آ کر اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو  پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے، لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔

 ماہ مبارک عبادت و بندگی کا مہینہ ہے، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

قال اللہ تبارک و تعالٰی : یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة،

خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو ! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ تا کہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔

یعنی اگر آخرت کی بے بہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤ اس لیے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا، اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لیے اپنی نعمتوں کی بارش کر دوں گا۔

انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پروردگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا ، بھوک و پیاس کو تحمل کیا تو جب جنّت میں داخل ہو گے تو آواز قدرت آئے گی:

ترجمہ: اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے۔

ماہ مبارک کے روز و شب انسان کے لیے نعمت پروردگار ہیں جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا : الحمد للہ ربّ العالمین اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے شام کو کہا اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔

کتنا آسان طریقہ بتادیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے ایک آیت کا ثواب دس کے برابر ، ایک نیکی کا ثواب دس برابر، امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :

من قرء فی شھر رمضان آیة من کتاب اللہ کان کمن ختم القرآن فی غیرہ من الشّھور،

 جو شخص ماہ مبارک میں قرآن کی ایک آیت پڑھے تو اس کا اجر اتنا ہی ہے جتنا دوسرے مہینوں میں پورا قرآن پڑھنے کا ہے۔

 کسی شخص نے رسول اکرم (ص) سے سوال کیا :

یا رسول اللہ ! ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان ؟ فقال رسول اللہ: لیس علی ثواب رمضان قیاس،

یا رسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا ؟ تو رسول خدا نے فرمایا : ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا.گویا خداوند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آ کر جھکے تو سہی . کسی طرح آ کر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی تا کہ میں اس کو بخشش دوں۔

رسول خدا (ص) ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں:

انّ شھر رمضان ، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات۔

ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نیکیوں کو دو برابر کر دیتا ہے. گناہوں کو مٹا دیتا اور درجات کو بلند کرتا ہے.

اگر کوئی شخص ماہ مبارک میں سالم رہے تو پورا سال صحیح و سالم رہے گا اور ماہ مبارک کو سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے۔ اب یہ حدیث مطلق ہے جسم کی سلامتی کو بھی شامل ہے اور اسی طرح روح کی بھی، یعنی اگر کوئی  شخص اس مہینہ میں نفس امارہ پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی روح کو سالم غذا دے تو خداوند متعال کی مدد اس کے شامل حال ہو گی اور وہ اسے اپنی رحمت سے پورا سال گناہوں سے محفوظ رکھے گا۔ اسی لیے تو علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ:

رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے تہذیب نفس کا مہینہ ہے، اس ماہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتا ہے، اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کر پائے گا۔

جو نیکی کرنی ہے وہ اس مہینہ میں کر لیں ، جو صدقات و خیرات دینا چاہتے ہیں وہ اس مہینہ میں حقدار تک پہنچائیں اس میں سستی مت کریں۔ مولائے کائنات امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں ایک کل کا دن جو گذر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا اس لیے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا دے دیا، اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے، جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں ، ممکن ہے زندہ رہے، ممکن ہے اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے اس دن میں بجا لا، اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے ، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے ، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے ، اگر خمس نہیں نکالا تو آج ہی کے اپنا حساب کر لے ، اگر کسی ماں  یا بہن نے آج تک پردہ کی رعایت نہیں کی تو جناب زینب سلام اللہ علیھا کا واسطہ دے کر توبہ کر لے،  اگر آج تک نماز سے بھاگتا رہا تو آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں سر جھکا لے خدا رحیم ہے تیری توبہ قبول کر لے گا، اس لیے کہ اس نے خود فرمایا ہے:

أدعونی أستجب لکم،

اے میرے بندے مجھے پکار میں تیری دعا قبول کروں گا۔

یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے بخشش کا مہینہ ہے، اور پھر خود رسول مکرم اسلام (ص) فرماتے ہیں:

رمضان المبارک کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے چونکہ وہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے،

آئیں مل کر دعا کریں کہ اے پالنے والے تجھے اس مقدس مہینے کی عظمت کا واسطہ ہم سب کو اس ماہ میں اپنے اپنے نفس کی تہذیب و اصلاح اور اسے اس طرح گناہوں سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرما جس طرح تو چاہتا ہے اس لیے کہ تیری مدد کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے۔

امام صادق علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اذا دخل شھر رمضان ، فاجھدوا أنفسکم فانّ فیہ تقسیم الأرزاق و تکتب الآجال و فیہ یکتب وفد اللہ الّذین یفدون الیہ و فیہ لیلة العمل فیھا خیر من العمل فی ألف شھر۔

جب ماہ مبارک آ جائے تو سعی و کوشش کرو اس لیے کہ اس ماہ میں رزق تقسیم ہوتا ہے تقدیر لکھی جاتی ہے اور ان لوگوں کے نام لکھے جاتے ہیں جو حج سے شرفیاب ہوں گے، اور اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے کہ جس میں عمل ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے۔

رسول خدا (ص) اس مقدس مہینہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

أنّ شھرکم ھذا لیس کالشّھور ، أنّہ اذا أقبل الیکم أقبل بالبرکة و الرّحمة، و اذا أدبر عنکم أدبر بغفران الذّنوب ، ھذا شھر الحسنات فیہ مضاعفة ، و اعمال الخیر فیہ مقبولة۔

یہ مہینہ عام مہینوں کے مانند نہیں ہے، جب یہ مہینہ آتا ہے تو برکت و رحمت لیکر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو گناہوں کی بخشش کے ساتھ جاتا ہے ، اس ماہ میں نیکیاں دو برابر ہو جاتی ہیں اور نیک اعمال قبول ہوتے ہیں،

یعنی اسکا آنا بھی مبارک ہے اور اس کا جانا بھی مبارک بلکہ یہ مہینہ پورے کا پورا مبارک ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کریں،کوئی لمحہ ایسا نہ ہو جو ذکر خدا سے خالی ہو اور یہی ہمارے آئمہ ہدٰی علیہم السلام کی سیرت ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان پر دعا، تسبیح ، استغفار اور تکبیر کے سوا کچھ جاری نہ ہوتا تھا۔

وہ خدا کتنا مہربان ہے کہ اپنے بندوں کی بخشش کے لیے ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان کو رسیوں سے جکڑ دیں تا کہ کوئی مؤمن اس کے وسوسہ کا شکار ہو کر اس ماہ کی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے لیکن اگر اسکے بعد بھی کوئی انسان اس ماہ مبارک میں گناہ کرے اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ کر سکے تو اس سے بڑھکر کوئی بدبخت نہیں ہے. رسولخدا (ص) کا فرمان ہے:

قد وکّل اللہ بکلّ شیطان مرید سبعة من الملائکة فلیس بمحلول حتّیٰ ینقضی شھرکم ھذا،

خداوند متعال نے ہر فریب دینے والے شیطان پر سات فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے تا کہ وہ تمہیں فریب نہ دے سکے، یہاں تک کہ ماہ مبارک ختم ہو۔

کتنا کریم ہے وہ ربّ کہ اس مہینہ کی عظمت کی خاطر اتنا کچھ اہتمام کیا جا رہا ، اب اس کے بعد چاہیے تو یہ کہ کوئی مؤمن شیطان رجیم کے دھوکے میں نہ آئے اور کم از کم اس ماہ میں اپنے آپ کو گناہ سے بچائے رکھے اور نافرمانی خدا سے محفوظ رہے ورنہ غضب خدا کا مستحق قرار پائے گا۔ اسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

من أدرک شھر رمضان فلم یغفرلہ فأبعدہ اللہ،

جوشخص ماہ رمضان المبارک کو پائے مگر بخشا نہ جائے تو خدا اسے راندہ درگاہ کر دیتا ہے۔

اس میں کوئی ظلم بھی نہیں اس لیے کہ ایک شخص کے لیے آپ تمام امکانات فراہم کریں اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود وہ آپکی امید پر پورا نہ اترے تو واضح ہے کہ آپ اس سے کیا برتاؤ کریں گے؟؟؟

اس مبارک مہینہ سے خوب فائدہ اٹھائیں اسلیے کہ نہیں معلوم کہ آئندہ سال یہ سعادت نصیب ہو یا نہ ہو ؟ تا کہ جب یہ ماہ انتہاء کو پہنچے تو ہمارا کوئی گناہ باقی نہ رہ گیا ہو۔ جب رمضان المبارک کے آخری ایّام آتے تو رسول گرامی اسلام (ص) یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

اللّھمّ لا تجعلہ آخر العھد من صیامی شھر رمضان ، فان جعلتہ فاجعلنی مرحوما و لا تجعلنی محروما۔

خدایا! اس ماہ رمضان کو میرے روزوں کا آخری مہینہ قرار نہ دے ، پس اگر یہ میرا آخری مہینہ ہے تو مجھے اپنی رحمت سے نواز دے اور اس سے محروم نہ رکھ ۔



 

یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم کو خداوند نے اپنی مہمانی کی طرف دعوت دی ہے اور تمہیں صاحب کرامت قرار دیا ہے ۔ اس مہینہ میں تمھاری ہر سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے۔ تمہارا سونا عبادت ہے۔ تمہارے اعمال اس مہینہ میں قبول ہوتے ہیں۔ تمہاری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ پس تم صدق دل سے صاف اور خالص نیت کے ساتھ گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے خدا سے دعا کرو کہ وہ اس مہینے میں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن پاک کرنے کی تم کو توفیق عنایت فرمائے۔

وہ شخص بدبخت اور شقی ہے جو اس عظیم مہینہ میں اللہ کی بخشش سے محروم رہے۔ اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو ۔ اپنے عزیز فقراء و محتاجوں کو صدقہ دو ، اپنے بزرگوں کا احترام کرو، اپنے بچوں سے نوازش و مہربانی کے ساتھ پیش آؤ، اپنے خاندان والوں کے ساتھ صلہ رحم کرو ، اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو ( برے الفاظ غیبت وغیرہ سے ) اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھو ان چیزوں سے جن کا دیکھنا تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ یتیموں کے ساتھ مہربانی کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم پر رحم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور نمازوں کے وقت خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کرو کیوں کہ یہ دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے۔ خداوند عالم نماز کے وقت اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ کرتا ہے اور مناجات کرنے والوں کا جواب دیتا۔ اے لوگو! تمہاری زندگی میں گرہیں پڑی ہوئی ہیں تم اللہ سے طلب مغفرت کر کے اپنی زندگی کی گرہیں کھولنے کی کوشش کرو۔ تمہاری پشت گناہوں کی سنگینی کی وجہ سے خمیدہ ہو چکی ہیں لہٰذا طولانی سجدے کے ذریعہ اپنی پشت کے وزن کو ہلکا کرو۔ خداوند عالم اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں اس مہینہ میں نماز گزاروں اور سجدہ کرنے والوں پر عذاب نہیں کروں گا اور قیامت میں انہیں جہنم کی آگ سے نہیں ڈراؤں گا۔

اے لوگو! اگر کوئی شخص اس مہینہ میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ کسی صحابی نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص) ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ مؤمنین کو افطار کرائیں، تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم آدھی کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی افطار میں دے کر اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر سکتے ہو کیوں کہ خداوند عالم اس کو وہی ثواب عنایت فرمائے گا جو افطار دینے پر قدرت رکھنے والوں کو دیتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو درست کر لے اسے خداوند عالم قیامت کے دن پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزار دے گا۔ حالانکہ لوگوں کے قدم اس وقت وہاں ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اگر کوئی اس مہینہ میں اپنے غلام یا کنیز سے کم کام لے قیامت میں خداوند عالم اس کے حساب و کتاب میں آسانی فرمائے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی یتیم کو مہربانی و عزت کی نگاہ سے دیکھے قیامت میں خداوند عالم بھی اس کو مہربانی کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء کے ساتھ احسان اور صلہ رحم کرے خداوند عالم قیامت میں اپنی رحمت سے اسے نوازے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء سے قطع رحم کرے گا خداوند عالم قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دے گا۔

رمضان المبارک کا مہینہ خداوند عالم کا مہینہ ہے، یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم آسمانوں، جنت اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کا دروازہ بند کر دیتا ہے ۔ اس مہینہ کی ایک شب (شب قدر) ایسی ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔

پس صاحبان ایمان کو اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ اس مہینہ کے دن و رات کس طرح سے گزاریں اور اپنے اعضاء و جوارح کو خداوند عالم کی نافرمانی سے کس طرح محفوظ رکھیں، کیوں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

جب تم روزہ رکھو تو اس کے ساتھ تمہارے بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ رکھیں ، عام دنوں کے مانند نہ ہو جن میں تم بغیر روزہ کے رہتے ہو ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

روزہ فقط کھانے پینے سے بچنے کا نام نہیں بلکہ روزہ کی حالت میں اپنی زبانوں کو بھی (جھوٹ ،گالی ،غیبت ،چغل خوری ،تہمت وغیرہ سے) محفوط رکھو۔ آنکھوں کو حرام چیزوں کی طرف نگاہ کرنے سے محفوظ رکھو ،لڑائی جھگڑا نہ کرو ،برے لوگوں سے بچو،اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق رکھو آخرت کی طرف بڑہو اور ہر وقت خوف خدا کو مد نظر رکھو اور اللہ کے عذاب سے ڈرو اور قائم آل محمد (ص) کے ظہور کی تعجیل کے لیے ہر وقت دعائیں مانگو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: غیبت کے زمانہ میں ظہور امام عصر (ع) کا انتظار واجب ہے۔

روزے کے کئی لحاظ سے مختلف مادی، ، طبی اور معاشرتی آثار ہیں، جو اس کے ذریعے سے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھنا اگرچہ ظاہراً سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لیے راحت و آسائش اور آرام و سلامتی کا باعث ہے، یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لیے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ تکلیف و تنگی، روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح خداوند کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام تر فوائد خود انسانوں کے لیے ہیں۔

روزے کے نتیجے میں جو اثرات روزہ دار پر مرتب ہوتے ہیں، ان میں سے اہم ترین اخلاقی و تربیتی پہلو ہے، روزے روح انسانی کو لطیف تر، ارادے کو قوی تر اور مزاج انسانی کو معتدل تر بنا دیتے ہیں، روزہ دار حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح وہ تمام جنسی لذات سے دوری و اجتناب اختیار کر لیتا ہے اور عملی طور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے اور اختیار میں ہے، ہوس و شہوت و خواہشات نفسانی اس کے کنٹرول میں ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔

حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی و معنوی اثر ہے، وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہوتے ہیں، جب اسے بھوک و پیاس محسوس ہوتی ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ نکلتا ہے، لیکن یہی روزہ وقتی پابندی کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اس انسان کو سخت سے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتا ہے، غرض کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔

حضرت امام علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم سا کام کریں کہ جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے، آپ (ص) نے فرمایا: الصوم یسود وجھہ، روزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ: الصوم جنۃ من النار، روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔

امام علی (ع) روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالٰی نے روزے کو شریعت میں اس لیے شامل کیا ہے تا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔

پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ:

بہشت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے، اس میں سے صرف روزہ دار داخل جنت ہونگے۔

روایت میں ہے کہ: روزے دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے، جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہو گا تو وہ ایسا سیراب ہو گا کہ اسے پھر کبھی بھی پیاس و تشنگی کا احساس نہ ہو گا۔

حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری (ع) کو خط لکھا اور پوچھا کہ: اللہ تعالی نے روزے کو کیوں فرض کیا ہے؟ تو آپ (ع) نے جواب میں فرمایا: تا کہ غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہو جائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد 2 ص 55

ایک اور مشہور حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ:

ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: روزہ اس لیے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی و مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لیے فراہم ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور دولتمند کو بھی بھوک، اور رنج کا ذائقہ چکھائے، تا کہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔ غرض کہ روزے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں و معاشرے کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کر سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کی غذا میں بچت کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

روزے تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی پر طبی لحاظ سے بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں، طب کی جدید تحقیقات کی روشنی میں روزہ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے معجزانہ اثر رکھتا ہے، روزے سے انسانی معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس فعال ترین مشینری (معدے) کو آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ حکم اسلامی کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری و افطاری کے کھانے میں افراط و اضافہ سے کام لے، تا کہ روزہ سے مکمل طبی نتیجہ حاصل کیا جا سکے، روزے کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ:

روزہ رکھو تا کہ صحت مند رہو۔

ایک اور حدیث آپ سے مروی ہے کہ: معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک و فاقہ اعلٰی ترین دوا ہے۔

بحار الانوار ج 14 ص34

ماہ مبارک رمضان آسمانی کتب کے نزول اور تعلیم و تدریس کا مہینہ ہے، اس ماہ اللہ کی یاد میں قلوب نیکی کی جانب مائل ہوتے ہیں، اس لیے روح انسانی کی تربیت آسانی سے ہو جاتی ہے، سانسیں تسبیح کی مانند ہوتی ہیں اور سونا عبادت ہوتا ہے، اعمال و دعائیں قبول ہوتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) نے ماہ مبارک رمضان کی فضائل و برکات کے حوالے سے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ:

اے لوگو! یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن دوسرے ایام سے بہتر، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی مانند ہیں، تمہاری نیند عبادت ہے اور تمہارے اعمال و دعائیں مستجاب ہیں۔

لہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعائیں مانگو، تا کہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینے خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے، اپنے فقراء و مساکین پر احسان کرو، اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر مہربان ہو جاو، رشتہ داروں کے روابط کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہوں سے پاک رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے باز رکھو، جن کا دیکھنا حلال نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں سے شفقت و مہربانی سے پیش آؤ، تا کہ وہ بھی تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔

وسائل الشیعہ ج 8  باب احکام شہر رمضان


 Related image

1- ارکاناسلام:

قال الباقر علیه السلام: بنی الاسلام علی خمسة اشیاء، علی الصلوة و اكاة والحج و الصوم و الولایه.

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: اسلام کے پانچارکان ہیں، نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت۔

فروع كافی، ج 4 ص 62، ح 1

2- روزہ رکھنے کا فلسفہ:

قال الصادق علیه السلام: انما فرض الله الصیام لیستوی به الغنی و الفقیر.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خداوند نے روزہ اسلیے واجب قرار دیا ہے کہ تا کہ اس کے ذریعے سے غنی اور فقیر کے فرق کو آپس میں مٹاسکے۔

من لا یحضره الفقیه، ج 2 ص 43، ح 1

3- روزہ انسان کے اخلاص کا امتحان ہے:

قال امیرالمومنین علیه السلام: فرض الله . الصیام ابتلاء لاخلاص الخلق،

امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خداوند نے روزہ اسلیے واجب قرار دیا ہے کہ تا کہ اس کے ذریعے سے انسانوں کے اخلاص کا امتحان لے سکے۔

نهج البلاغه، حكمت 252

4-روزه قیامت کی یاد دلاتا ہے:

قال الرضا علیه السلام: انما امروا بالصوم لكی یعرفوا الم الجوع و العطشفیستدلوا علی فقر الاخر.

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: انسانوں کو روزہرکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کے درد کو سمجھ سکیں اور اسی کےذریعے سے قیامت کے دن کی ضرورت اور نیاز کو بھی سمجھ سکیں۔

وسائل الشیعه، ج 4 ص 4 ح 5 علل الشرایع، ص 10

5-روزه رکھنا بدن کی زکات ہے:

قال رسول الله صلی الله علیه و آله لكل شیئی زكاة و زكاة الابدان الصیام.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: ہر چیز کیایک زکات ہے اور بدن کی زکات روزہ رکھنا ہے۔

الكافی، ج 4، ص 62، ح 3

6-روزه جہنم کی آگ سے ڈھال ہے:

قال رسول الله صلی الله علیہ و آلہ: الصوم جنة من النار.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: روزہ جہنمکی آگ کے سامنے ڈھال ہے، یعنی روزہ رکھنے سے انسان جہنم کی آگ سے محفوظ رہتا ہے۔

الكافی، ج 4 ص 162

7- روزے کی اہمیت:

الصوم فی الحر جهاد.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: گرمیوں میںروزہ رکھنا، راہ خدا میں جہاد کرنے کی طرح ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 257

8- نفس کا روزہ:

قال امیرالمومنین علیه السلام صوم النفس عن لذات الدنیا انفع الصیام.

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: انسان کےنفس کا دنیاؤی لذات سے رکے رہنا، یہ فائدے مند ترین روزہ ہے۔

غرر الحكم، ج 1 ص 416 ح 64

9- واقعی و حقیقی روزہ:

قال امیرالمومنین علیه السلام الصیام اجتناب المحارم كما یمتنع الرجل منالطعام و الشراب.

امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: روزہ حرام سے بچنےکا نام ہے، جس طرح کہ انسان ظاہری طور پر کھانے اور پینے سے پرہیز کرتا ہے۔

بحار ج 93 ص 249

10- بہترین روزه:

قال امیرالمومنین علیه السلام صوم القلب خیر من صیام اللسان و صوم اللسان خیرمن صیام البطن.

امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: دل کا روزہ رکھنا،زبان کے روزے رکھنے سے بہتر ہے اور زبان کا روزہ رکھنا، شکم (پیٹ) کے روزہ رکھنےسے بہتر ہے۔

غرر الحكم، ج 1، ص 417، ح 80

11- آنکھ اور کان کا روزہ:

قال الصادق علیه السلام اذا صمت فلیصم سمعك و بصرك و شعرك و جلدك.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: جب تم روزہ رکھتےہو تو، تمہاری آنکھ، کان، بالوں اور جلد کا بھی روزہ ہونا چاہیے، یعنی روزے کیحالت میں پیٹ کے ساتھ ساتھ تمام بدن کے اعضاء کو بھی گناہ سے بچنا چاہیے۔

الکافى ج 4 ص 87، ح 1

12- اعضاء و جوارح کا روزہ:

عن فاطمه اهرا سلام الله علیها ما یصنع الصائم بصیامه اذا لم یصن لسانه وسمعه و بصره و جوارحه.

حضرت زہرا علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ: روزے دار کے اسروزے کا کیا فائدہ ہے کہ کہ جس میں وہ اپنی زبان، کان، آنکھ اور دوسرے اعضاء کوگناہوں سے نہ بچائے۔

بحار، ج 93 ص 295

13- ناقص روزہ:

قال الباقر علیه السلام لا صیام لمن عصی الامام و لا صیام لعبد ابق حتی یرجع ولا صیام لامراة ناشزة حتی تتوب و لاصیام لولد عاق حتی یبر.

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: ان افراد کا روزہمکمل نہیں ہے:

1- جو اپنے زمانے کے امام کی نافرمانی کرے،

2- اپنے آقا سے فرار کرنے والا غلام، جب تک وہ واپس نہ آجائے،

3- ایسی بیوی جو اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے، مگر یہ کہ وہتوبہ کرے،

4- ایسی اولاد جو والدین کی نافرمان ہے، مگر یہ اپنے والدینکی اطاعت کرے،

بحار الانوار ج 93، ص 295

14- بے فائدہ روزه:

قال امیرالمومنین علیه السلام كم من صائم لیس له من صیامه الا الجوع و الظما وكم من قائم لیس له من قیامه الا السهر و العناء.

امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: بہت سے روزہ دارایسے ہیں کہ جنکو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہتسے عبادت کرنے والے ایسے ہیں کہ جنکو اپنی عبادت سے رات کو جاگنے اور تھکاوٹ کےعلاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

نهج البلاغه، حكمت 145 

15-روزه اور صبر:

عن الصادق علیه السلام فی قول الله عزوجل واستعینوا بالصبر و الصلوة »

قال: الصبر الصوم.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خداوند نے یہ جوفرمایا ہے کہ: (مشکل وقت میں) صبر اور نماز سے مدد طلب کرو، اس آیت میں صبر سےمراد، روزہ ہے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 298، ح 3

16-روزه اور صدقہ:

قال الصادق علیه السلام صدقه درهم افضل من صیام یوم.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خدا کی راہ میں ایکدرہم صدقہ دینا، ایک مستحبی روزہ رکھنے سے بہتر و افضل ہے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 2، ح 6 

17-  روزهرکھنے کی جزاء:

قال رسول الله صلی الله علیه و آله: قال الله تعالی ; الصوم لی و انا اجزی به،

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: خداوند نے خود فرمایا ہے کہروزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اسکی جزاء دوں گا۔

وسائل الشیعه ج 7 ص 294، ح 15 و 16; 27 و 30

- بہشتی غذائیں:

قال رسول الله صلی الله علیه و آله: من منعه الصوم من طعام یشتهیه كان حقا علیالله ان یطعمه من طعام الجنة و یسقیه من شرابها.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: جس انسان کواسکا روزہ اسکی پسندیدہ غذاؤں سے روکے تو، خداوند پر بھی ایسے انسان کو جنت کیکھانے پینے کی اشیاء عطا کرنا، واجب و ضروری ہو جاتا ہے۔

بحار الانوار ج 93 ص 331 

19- روزہ رکھنے والے خوش قسمت ہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه و آله: طوبی لمن ظما او جاع لله اولئك الذینیشبعون یوم القیامة

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: خوش قسمتہیں وہ لوگ جو خداوند کے لیے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جو قیامتوالے دن بھوک اور پیاس محسوس نہیں کریں گے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 299، ح‏2.

20- روزے داروں کے لیے خوشخبری:

قال الصادق علیہ السلام: من صام لله عزوجل یوما فی شدة الحر فاصابه ظما و كلالله به الف ملك یمسحون وجهه و یبشرونه حتی اذا افطر.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: جو بھی بہت زیادہگرمی میں خداوند کے لیے روزہ رکھے اور پیاسا رہے، تو خداوند ہزار فرشتوں کو حکمدیتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اسکے چہرے کو مس کریں اور اسکو بشارت دیں کہ یہاں تک کہوہ روزہ افطار کر لے۔

الكافی، ج 4 ص 64 ح 8 و بحار الانوار ج 93 ص 247

 


21- روزه دار کے لیے خوشی:

قال الصادق علیه السلام:للصائم فرحتان فرحة عند افطاره و فرحة عند لقاء ربه،

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں،

1- افطار کے وقت، 2- خداوندسے ملاقات کے وقت ( مرتے وقت اور قیامت والے دن،)

وسائل الشیعه، ج 7 ص 290 و294 ح‏6 و 26.

22- روزے دار اور باب بہشت:

قال رسول الله صلی الله علیهو آله: ان للجنة بابا یدعی الریان لا یدخل منه الا الصائمون.

رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ نے فرمایا ہے کہ: جنت کا ایک دروازہ ہے، جسکا نام ریان ہے کہ اس دروازے سے فقطروزے دار داخل ہو کر جنت میں جائیں گے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 295، ح31.

23- روزه داروں کی دعا:

قال الكاظم (علیه السلام):دعوة الصائم تستجاب عند افطاره،

امام كاظم علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: روزے دار انسان کی دعا افطار کے وقت قبول ہوتی ہے۔

بحار الانوار ج 92 ص 255 ح33. 

24- مؤمنوں کی بہار:

قال رسول الله صلی الله علیهو آله : الشتاء ربیع المومن یطول فیه لیله فیستعین به علی قیامه و یقصر فیه نهارهفیستعین به علی صیامه

قال رسول الله صلی الله علیهو آله نے فرمایا ہے کہ: سردیوں کا موسم مؤمنوں کے لیے بہار کا موسم ہے کہ وہ اسموسم کی لمبی راتوں میں جاگ کر عبادت کرتے ہیں اور اسکے چھوٹے دنوں میں روزے رکھتےہیں۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 302، ح3.

25- مستحب روزہ:

قال الصادق (علیه السلام):من جاء بالحسنة فله عشر امثالها من ذلك صیام ثلاثة ایام من كل شهر.

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: جو بھی نیک کام انجام دے تو، اسکو دس گنا ثواب ملتا ہے، کہ ان کاموںمیں سے ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھنا ہے۔

وسائل الشیعه، ج 7، ص 313، ح33

26- ماه رجب کا روزہ:

قال الكاظم (علیه السلام):رجب نهر فی الجنه اشد بیاضا من اللبن و احلی من العسل فمن صام یوما من رجب سقاهالله من ذلك النهر.

امام كاظم علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے کہ وہ دودھ سے سفید اور شہد سے میٹھیہے، جو بھی رجب کے مہینے میں ایک روزہ رکھے تو خداوند اس شخص کو اس نہر سے سیرابکرے گا۔

من لا یحضره الفقیه ج 2 ص 56ح 2

27- ماه شعبان کا روزہ:

من صام ثلاثة ایام من اخرشعبان و وصلها بشهر رمضان كتب الله له صوم شهرین متتابعین.

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: جو بھی شعبان کے مہینے کے آخری تین دن روزہ رکھے اور اسکو ماہ رمضانکے ساتھ ملا دے تو خداوند اسکے لیے مسلسل دو مہینے روزہ رکھنے کا ثواب لکھے گا۔

وسائل الشیعه ج 7 ص 375،ح 22

28-افطاری دینا:

قال الصادق علیہ السلام منفطر صائما فله مثل اجره،

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: جو بھی ایک روزے دار کا روزہ افطار کروائے، تو اسکو روزے دار کی طرحکا اجر ملے گا۔

الكافی، ج 4 ص 68، ح 1 

29- افطاری دینا:

قال الكاظم علیہ السلام فطركاخاك الصائم خیر من صیامك،

امام كاظم علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: تمہارا اپنے روزے دار مؤمن بھائی کا روزہ افطار کرانا، یہ تمہارےاپنے مستحبی روزہ رکھنے سے بہتر ہے۔

الكافی، ج 4 ص 68، ح 2 

30-روزه نہ رکھنا:

قال الصادق علیه السلام : منافطر یوما من شهر رمضان خرج روح الایمان منه

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: جو بھی جان بوجھ کر ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھے تو، اس شخصکے بدن سے ایمان کی روح خارج ہو جاتی ہے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 1، ح4 و 5

من لا یحضره الفقیه ج 2 ص73، ح 9

31-رمضان خداوند کا مہینہ:

قال امیرالمؤمنین : شهررمضان شهر الله و شعبان شهر رسول الله و رجب شهری،

امام علی علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: رمضان خداوند کا مہینہ ہے اور شعبان رسول خدا کا مہینہ ہے اور رجبمیرا مہینہ ہے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 266، ح23. 

32-رمضان رحمت کا مہینہ:

قال رسول الله (صلی اللهعلیه و آله): . و هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخره عتق من النار.

رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ نے فرمایا ہے کہ: رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جسکا پہلا حصہ رحمت، درمیان والا حصہمغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزاد ہونا ہے۔

 بحار الانوار، ج 93، ص342

33-فضیلت ماه مبارک رمضان:

قال رسول الله صلی الله علیهو آله ان ابواب السماء تفتح فی اول لیلة من شهر رمضان و لا تغلق الی اخر لیلة منه،

رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ نے فرمایا ہے کہ: آسمان کے دروازے رمضان کے مہینے کی پہلی رات کھولے جاتے ہیںاور یہ کھلے دروازے آخری رات تک بند نہیں ہوتے۔

بحار الانوار، ج 93، ص 344

34-اہمیت ماه مبارک رمضان:

قال رسول الله صلی الله علیهو آله لو یعلم العبد ما فی رمضان لود ان یكون رمضان السنة،

رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ نے فرمایا ہے کہ: اگر انسان رمضان کے مہینے کی قدر و منزلت کو جان لیتا تو پھرتمنا کرتا کہ اے کاش سارا سال ہی رمضان کا مہینہ ہوتا۔

بحار الانوار، ج 93، ص 346

35-قرآن اور ماه مبارکرمضان:

قال الرضا علیه السلام منقرا فی شهر رمضان ایة من كتاب الله كان كمن ختم القران فی غیره من الشهور.

امام رضا علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ جو بھی رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کی ایک آیت کی تلاوت کرے تو یہایسا ہی ہے کہ جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں مکمل قرآن کی تلاوت کی ہے، یعنی اسمبارک مہینے تلاوت قرآن کا ثواب اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے۔

بحار الانوار ج 93، ص 346

36- مقدر کو بدلنے والی رات:

قال الصادق علیه السلام راسالسنة لیلة القدر یكتب فیها ما یكون من السنة الی السنة.

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: انسان کے اعمال کے حساب کی رات، شب قدر ہو گی، اس رات میں آنے والےسال تک کے تمام مقدرات لکھے جاتے ہیں۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 258 ح 8

37- شب قدر کی فضیلت:

قیل لابی عبد الله علیهالسلام كیف تكون لیلة القدر خیرا من الف شهر؟ قال: العمل الصالح فیها خیر من العملفی الف شهر لیس فیها لیلة القدر.

امام صادق علیہ السلام سےسوال ہوا کہ کس طرح شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ؟

امام نے فرمایا کہ: اس راتمیں نیک کام کرنا، اس نیک کام کرنے سے بہتر ہے کہ جو ایسے ہزار مہینوں میں انجامدیا جائے کہ جن میں شب قدر موجود نہیں ہے۔ پس اسی وجہ سے شب قدر ہزار مہینوں سےبہتر ہے۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 256، ح2

38-تقدیر کے فیصلے:

قال الصادق علیه السلامالتقدیر فی لیلة تسعة عشر و الابرام فی لیلة احدی و عشرین و الامضاء فی لیلة ثلاثو عشرین.

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: ماہ رمضان کی 19 ویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے، اور 21 ویں شب کووہ تقدیر حتمی ہو جاتی ہے، اور 23 ویں شب کو اس تقدیر کے حتمی ہونے کی تصدیق اوراس پر دستخط کر دئیے جاتے ہیں۔

وسائل الشیعه، ج 7 ص 259 

39- شب قدر میں شب بیداریکرنا:

عن فضیل بن یسار قال: كانابو جعفر (علیه السلام) اذا كان لیلة احدی و عشرین و لیلة ثلاث و عشرین اخذ فیالدعا حتی یزول اللیل فاذا زال اللیل صلی.

فضیل بن یسار کہتا ہے کہامام باقر علیہ السلام ماہ رمضان کی 21 ویں اور 23 ویں شب کو صبح صادق تک دعا وعبادت میں مصروف ہو جاتے تھے، اور جب رات ختم ہو جاتی تھی تو صبح کی نماز ادا کرتےتھے۔

وسائل الشیعه، ج 7، ص 260، ح4

40-زكات فطره:

قال الصادق علیه السلام انمن تمام الصوم اعطاء اكاة یعنی الفطرة كما ان الصلوة علی النبی (صلی الله علیه وآله) من تمام الصلوة.

امام صادق علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ: زکات فطرہ ادا کرنا روزے کو مکمل کرتا ہے، جس طرح کہ رسول خدا اورانکی آل پر صلوات پڑھنا نماز کو مکمل کرتا ہے۔

وسائل الشیعه، ج 6 ص 221، ح5


پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہوآلہ وسلم خطبہ شعبانیہ میں ارشاد فرماتے ہیں "یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میںتمہیں اللہ کے یہاں دعوت دی گئی ہے اور تم لوگ کرامت خدا کے مہمان قرار پائے ہو."

 یہاں پر جو چیز سب سے اہمہے وہ یہ ہے کہ اس مہینے  میں انسان اللہکا مہمان  ہے اور مہمانی میں میزبان  اور میزبانی کی سطح کو دیکھ کر انسان کے اندر ایکخاص ادب ایجاد ہوتا ہے جو اسے گھر کی طرح ہر چیز کی آزادی نہیں دیتا اور اس کے لئےکچھ خاص محدودیتیں ایجاد کرتا ہے اسی طرح رمضان المبارک ضیافت الہی کا مہینہہے  یہاں پر بھی  میزبان اور میزبانی کے متعلق جو محدودیتیں ہیںوہ ایجاد ہوتی ہیں ۔

 اب  سوال یہ ہیکہ اس مہینے میں جب انسان اللہ کامہمان بن جاتا ہے تو اسے مبطلات صوم کے علاوہ کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

کیونکہ روزہ صرف نہ کھانےاور نا پینے کا نام نہیں  ہے بلکہ روزے کیکچھ شرائط ہیں جن کی رعایت کرنا ضروری ہے جس کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلامفرماتے ہیں  کہ روزہ دار کے اندر ان صفاتکا ہونا ضروری ہیں۔

  جن میں سے پہلیصفت کو آج آپ کی خدمت میں بیان کریں گے سب سے پہلے جس چیز سے روزہ دار کو منع کیاگیا ہے وہ جھوٹ ہے کیوں کہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے جس کی قرآن کریم اورائمہاطہار علیہم السلام نے مذمت کی ہے سورہ نحل میں ارشاد ہو رہا ہے جھوٹ بہتان تو بسوہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ یعنی جھوٹ انسان کےدل کو اتنا سیاہ کر دیتا ہے کہ وہ اللہ کے آیتوں پر ایمان نہیں لا سکتا۔

 اس کے علاوہ سورہ آلعمران میں ارشاد ہوتا ہیکہ ان سب کو مباہلہ کی دعوت دیں اور پھر ہم سب مل کر جھوٹےپر لعنت کریں گے یعنی جھوٹے پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے، اس کے فرشتے بھی لعنت بھیجتےہیں انبیاء بھی اور ائمہ اطھار علیھم السلام بھی لعت کرتے ہیں۔

 ایک حدیث میں پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ "جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہےہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے ہے اور یہ شخص جو جھوٹ بولتا رہتا ہے وہ اسقدر جھوٹا ہوتا ہے کہ خداوند متعال کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے"

 ایک دوسری حدیث میں ارشادفرماتے ہیں "آگاہ ہوجاوٴ، مَیں تمھیں گناہانِ کبیرہ میں سے سب سے بڑے گناہوںکو بتاتا ہوں :

کسیکو خدا کا شریک قرار دینا،

والدینکے ذریعے عاق ہوجانا، •اور جھوٹ بولنا۔

امام حسن عسکری علیہالسلام فرماتے ہیں "تمام برائیاں ایک کمرے میں مقفل ہے اوراس کی چابی جھوٹ ہےہے". حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا "مومن جب بغیر کسیعذر کے جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستّر ہزار فرشتے لعنت بھیجتے ہیں اور اس کے دِل سےایسی سخت بدبو اٹھتی ہے جو عرش تک پہنچتی ہے اور اس ایک جھوٹ کے سبب سے خدا اس کےلئے ستّر مرتبہ کرنے کے برابر کا گناہ لکھ دیتا ہے اور وہ بھی ایسے جن میںسے معمولی ترین ، ماں کے ساتھ (نعوذ بالله)ہو"

بے شک کوئی گناہ اتنا بڑانہیں ہے ، جتناکہ جھوٹ ہے ظاہر ہے کہ جھوٹ کے نقصانات کے نقصانات سے کہیں زیادہہوتے ہیں۔

 بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیںجو دو قبیلوں اور دو قوموں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں ۔

بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیںجو بے شمار جانوں کو ضائع کردیتے ہیں بعض جھوٹی گواہیاں بے گناہ آدمیوں کو سولی پرچڑھا دیتی ہیں۔

 اور کئی گھرانے تباہ کردیتیہیں اسی لئے ایک روایت میں ہے اَلْکِذْبُ شَرُّمِّنَ الشَّرَاب یعنیِ "جھوٹشراب سے زیادہ بڑی بُرائی ہے"۔

لہذا ہمیں اس با برکت مہینےمیں ان برائیوں کو ترک کرے کے اللہ کا مہمان بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس میزبانیکی محدودیتوں پر عمل کرتے ہوے اپنے میزبان کو خوش کرنا چاہیے۔

 یہ مہینہ سیکھنے کا مہینہہے لہذا جو اس مہینے سے سیکھیں گے پورا سال اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

 پروردگار سے ہماری دعا ہےہم سب کو اپنا حقیقی بندہ بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔


امام جعفر صادق علیہالسلام ارشاد فرماتے ہیں  کہ روزہ دار کےاندر ان صفات کا ہونا ضروری ہے جن میں سے پہلی صفت کل بیان کی کہ روزے دار کو جھوٹنہیں بولنا چاہیے۔

 آج ہم آپ کی خدمت میں  دوسری صفت بیان کریں گے "روزے دار کو غیبت سے پرہیز کرنا  چاہیے"۔

 یہ ایک برا عمل ہے علماخلاق کی نگاہ میں، غیبت یہ ہے کہ اپنے دینی بھائی کی غیرموجودگی میں، اس کی برائیکی جائے، اگرچہ وہ نقص اس کے بدن میں ہو یا اس کی صفات، افعال اور اقوال میں وہہو۔

قرآن مجید میں ارشادہورہا ہےکہ "ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ وہاپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے"، یہاں پر گوشت سے اس لئے تشبیح دی گئی ہے کیوں کہ  مسلمان بھائی کی عزت بالکل اس کے بدن کے حصے کیطرح ہوتی ہے جس طرح  اس کے بدن کے کسی حصےکو کاٹ کر دور نہیں پھینک سکتے اسی طرح ہم اس کی عزت کو بھی معاشرے میں نہیں اچھالسکتے اور اس آیت میں مردے سے مراد یہ ہیکہ تم اس کی صفات کو اسکی غیر موجودگی میں بیان کر رہے ہو اور جس طرح ایک مردہاپنا دفاع نہیں کر سکتا اسی طرح وہ شخص بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتا ۔

 خداوند اس وقت تک غیبتکرنے والے کو معاف نہیں کرتا جب تک وہ شخص راضی نہ ہو جائے جس کی غیبت کی گئی ہے.پیغمبر(ص) نے اپنی وصیت میں ابوذر سے فرمایا: "غیبت سے ڈرو، کیونکہ وہ سےبھی زیادہ بری چیز ہے. عرض کیا کیوں یا رسول اللہ؟ فرمایا: اس لئے کہ کار توبہکرے گا تو خداوند اس کی توبہ قبول کر لے گا لیکن غیبت کرنے والے کا گناہ اس وقت تکمعاف نہیں ہوتا جب تک کہ جس کی غیبت کی ہو وہ معاف نہ کرے"۔* امیر المومنینعلیہ السلام* ارشاد فرماتے ہیں ہیں کہ "جس محفل میں غیبت ہو رہی ہو تو اسمحفل میں موجود افراد کا دین اور ایمان تباہ و برباد ہو جاتا ہے"۔

 پیغمبر(ص) نے فرمایا:"جو کوئی بھی کسی مسلمان مرد یا عورت کی غیبت کرے گا، خداوند چالیس دن رات تکاس کے نماز اور روزے قبول نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ شخص خود معاف کر دے جس کی غیبتکی ہے۔"

غیبت انسان کے روح و روانکو خراب کرنے کے علاوہ، انسانوں کے سماجی محیط کو بھی آلودہ کرتی ہے اور دین کےمقصد کے خلاف، انسانوں کی آپس میں نفرت اور دشمنی کا باعث بنتی ہے، ذہنی س ختمکر دیتی ہے اور گناہ پھیلاتی. معاشرے کا ایمان اور اخلاق ختم ہو جاتا ہے

دنیا اور آخرت میں انسانکی رسوائی۔

گناہ اور معاصی کی برائیختم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں فساد پھیل جاتا ہے۔

سماج میں یکجہتی ختم ہ

و جاتی ہے جس کی وجہ سےقلوب ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔

اور کہیں ایسا نہ ہو کہروزہ رکھ کر ہم غیبت کرتے رہیں اور ہمارا حال اسی عورت کی طرح ہو کہ "جو روزہرکھ کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گئی تو اس کے بعد پیغمبراکرم(ص) نے کہا کہ لاؤ اسے کچھ کھلا دو تو اس عورت نے کہا کہ میں روزہ دار ہوں میںنے روزہ رکھا ہوا ہے، تو آنحضرت(ص) نے فرمایا کہ تمہارے منہ سے تو ایسی بو آرہی ہےجیسے تم نے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھایا ہو تو وہ چونک گئی کہ یا رسول اللہ یہکیسے ہو سکتا ہے ؟

تو آپ (ص) نے فرمایا کہجب تم راستے سے آ رہی تھی تو تم نے اپنے مومن بھائی کی غیبت کی ہے لہٰذا خالیبھوکے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اب بھوک اور پیاس برداشت کرنے سے کوئی فائدہ نہیںہے اس سے بہتر ہے کہ  تم کچھ کھا لو یا پیلو اس لئے کہ تم نے اپنا روزہ اس غیبت کے ذریعے سے باطل کر لیا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ پروردگارہمیں اہنا حقیقی روزہ دار بننے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں ان گناہان کبیرہ سےبچنے کی توفیق دے۔


 ماہ رمضان سیکھنے اورسکھانے کا مہینہ ہے اور یہ ایام جہاں لاک ڈاؤن بھی ہے اور ماہ رمضان بھی ہے ہماپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ہیں ان بابرکت ایام میں ہم اپنے بچوں کی بہترین  تربیت کر سکتے ہیں ان کو اچھے راستے کی طرف  لاسکتے ہیں اس کے  لئے  امام جعفر صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں کہ  " تم دوسروں کو اچھےعمل کی طرف دعوت دو اپنے عمل کے ذریعے سے " یعنی لوگوں کو بلاو اپنی زبان سےنہیں اپنے یکٹر سے اپنے کردار سے اچھے عمل کی طرف ۔

اور ہم یہ بات جانتے ہیںکہ بچہ اپنے ماں باپ کو دیکھ کر ان کی پیروی کرتا ہے، جو کام ماں باپ کرتے ہیں بچہبھی وہی کرتا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہنماز پڑھے تو آپ کو چاہئے کہ آزان ہوتے ہی آپ خود نماز کے لیے تیار ہوں ، دو یا تین  سال کا بچہ جب آپ کو ایسا کرتے دیکھے گا تو وہبھی کوشش کریگا رکوع کرنے کی سجدہ کرنے کی اور اسکو عادت پڑھ جائیگی اور محبت ہوجائیگی کیونکہ اس کے ماں باپ یہ کام کر رہے ہیں ۔

ایک اچھائی کی طرف دعوت دینااپنے کردار سے لیکن اس چیز کا خیال رکھینگے کہ بچے جو ہیں وہ بڑی باریکی سے ہمارےکاموں کو دیکھتے ہیں کہ ان کا حدف کیا ہے ، ان کی نیت کیا ہے ۔؟

کیونکہ بعض اوقات ایساہوتا ہے کہ ماں باپ جو ہیں وہ دیندار ہیں لیکن ان کے صرف  الفاظ تک  محدود ہیں ، وہ جو ہیں وہ نماز کی اہمیت بتاتےہیں ، وہ صدقہ دینے کی اہمیت بتاتے ہیں ، دوسروں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کی تاکیدکرتے ہیں لیکن جیسے آزان ہوتی ہے خود نماز نہیں پڑھتے ہی ، جہاں صدقہ دینے کی باتہوتی ہے وہاں سے خود دور بھاگتے ہیں، جب کبھی خود غصہ آتا ہے بجائے اس کے کہ اسے ایکبات سنانی ہوتی ہے اسے دس باتیں سناتے ہیں جھگڑا کرتے ہیں۔

بچے یہ دیکھتے ہیں کہ ماںباپ ہمارے ویسے نہیں ہیں ان کی حقیقت اور ہے۔

ہمارے بچے بھی کل اسیراستے پر جائینگے جس طرف ہم جا رہے ہیں۔

آپ اگر گھر میں بیٹھ کرکوئی غلط  کام کرینگے تو کل آپ کے بچے بھیویسا ہی کرینگے کیونکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ میرا باپ یہ کام کر رہا ہے ۔

کبھی کبھی ہم حلال اورحرام کی بہت باتیں کرتے ہیں گھر میں، حلال کی سخت تاکیدکرتے ہیں لیکن جب کبھیموقعہ ملتا ہے تو حرام بھی کھا لیتے ہیں ۔

اور غیبت کی سخت مخالفتکرتے ہیں لیکن سامنے بیٹھ کر دوسروں کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح بچے بھی وہ سبکام کرتے ہیں جو انکے والدین کر رہے ہوتے ہیں۔

ہر والدین یہی چاہتے ہیںکہ ان کے بچے آگے جا کر ایک نیک انسان بنے جس کی وجہ سے وہ اپنے ماں باپ کا نامروشن کر سکیں۔

 اگر ہر ماں باپ یہ چاہتےہیں تو انکو چاہئے کہ اپنے عمل کے ذریعے سے ان کو نیک راہ دکھائیں آپے کردار کے ذریعےسےاپنے بچوں کی تربیت کریں تاکہ وہ بھی اچھا کردار اپنائیں اور سماج میں اچھا کام کرینگےتو آپ کا نام روشن ہوگا۔

 اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے آپ کے لئے عزت کا سبب بنیں تو آپ انکی اچھی تربیت کر کے ان کو سماج کےحوالے کریں تاکہ معاشرہ آپ پر فخر کرے ۔

اور تربیت کرنے کا سب سےاچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے عمل اور کردار کے ذریعے اپنے بچوں کی تربیت کیجئے۔

پروردگار سے یہی دعا ہےکے وہ ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


 

ہمارے مراجع اکرام اورعلماءکرام نے ہمیشہ اس بات کی تاکید کی ہے کہ اس مہینے میں انسان کو اچھے اخلاق سےپیش آنا چاہیے ، ان کی اس تاکید کی وجہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہحدیث ہے جس میں آپ (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ " اے لوگو جو شخص اس ماہ مبارک میںاچھے اخلاق سے پیش آئیگا قیامت کے دن پروردگار اسے پل صراط سے گزرنے کا مجوز دیگااور جس دن اس کے پاؤں لرز رہے ہونگے پروردگار اس کی مدد فرمایئگا "۔

انبیاء علیہم السلام نےانسان کو ہمیشہ اچھے اخلاق کی تاکید فرمائی ہے لیکن اس مہینے میں خاص طور پر تاکیدفرما رہے ہیں کیونکہ اس مہینے میں انسان پورا بھوکا اور پیاسا رہتا ہے اور اس بھوکاور پیاس کی وجہ سے اس کے اندر کی طاقت کم ہو جاتی ہے تو انسان کو غصہ آتا ہے اوریہ غصہ اس کی بداخلاقی کا سبب بنتا ہے ۔

تو آئمہ اطہار  (ع)اور خاص کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تاکید کا مطلب یہ ہے کہانسان کو اس مہینے میں اپنے غصے کو کنٹرول کرنا چاہیے اور اپنی بداخلاقی کو خوشاخلاقی میں بدلنا چاہیے اور اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہیے ۔

اور آپ (ص) ایک دوسریحدیث میں ارشاد فرماتے ہیں کہ "جو شخص اس ماہ مبارک میں اپنے ماتحت کام کرنےوالوں سے اچھے اخلاق سے پیش آئیگا قیامت کے دن پروردگار اس سے راضی ہوگا اس سےخوشنود ہوگا "۔

اور ہم اس مہینے میں اپنےپروردگار کی رضایت حاصل کرنا چاہتے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ہمارا پروردگار ہم سے خوشہو تو اس کا ایک بہترین ذریعہ یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے ان لوگوںسے جو اس کے ماتحت کام کر رہے ہیں جو اس کے گھر میں ہیں یعنی انسان اپنے گھر والوںسے اچھے اخلاق سے پیش آیے۔

    ہمارے سماج میں عورت گھرکے سب کام کرتی ہے صبح سے رات تک اس کی کوئی چھٹی نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی مرد ہمدردیکے طور پر مدد کرنے کی بھی سوچتا ہے تو وہ صرف اور صرف ماں کی حد تک ہی سوچتا ہے،بہن کی مدد کرنے میں بےعزتی سمجھتا ہے اور بیوی کی مدد کرنے کو تو زن مریدی کا نامدیا جاتا ہے ، بلکہ اس طرح کہا جاتا ہے کہ یہ تو بیوی کا غلام بن گیا ہے جبکہاسلام میں اس کا دور دور تک کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔

اس کے بر عکس بیوی کی مددکے لئے اسلام نے اتنے ثواب کو معین کیا ہے جو انسان کے تصور سے بھی پرے ہے ۔

رسول اکرم  (ص)ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص ایک گھنٹہ گھر میں خدمت کرتا ہے یعنی اپنے گھر میں کامکرنے والی عورتوں کی مدد کرتا ہے یعنی وہ ماں ہے ، بہن ہے یا بیوی تو پروردگار اسےایک ہزار سال عبادت ، ہزار حج ،ہزار عمرہ اور ہزار غلام کو آزاد کرنے سے زیادہثواب دیتا ہے اور اس کی یہ ایک گھنٹہ کی عبادت جو ہے وہ ہزار غریبوں میں راہ خدامیں صدقہ تقسیم  کرنے سے بہتر ہے ۔  

اس کی یہ عبادت ہزاراسیروں کو آزاد کرنے سے بہتر ہے ۔

اور ایسے شخص کو جب موتآئیگی تو وہ اپنی موت سے پہلے جنت میں اپنا مقام دیکھ لے گا۔

یہ ثواب ہے گھر میں مددکرنے کا

لیکن ہمارے معاشرے میں یہبات ایک بڑی بےعزتی کی بات سمجھی جاتی ہے کہ مرد گھر میں ماں،بہن اور بیوی کے ساتھکوئی چھوٹا موٹا کام کروائے ۔

مردحضرات خود اٹھ کر پانیپینے کو بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

ایسا کیوں؟۔

کیونکہ شروع سے مرد کےذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ تم صرف باہر کے کام کرنے کے لئے ہو گھر کے کامعورتوں کے ذمہ ہے اور ایک حد تک بات ٹھیک بھی ہے لیکن یہ بات مرد کے ذہن میں اسقدر راسخ ہو جاتی ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کو اپنی بےعزتی سمجھتا ہے۔

حالانکہ پیغمبر اکرم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ " یا علی (ع) جو شخص گھر میں اپنےعیال کی خدمت کرتے ہوئے کراہت محسوس نہ کرے خدا اس کا نام شہداء اسلام کے دفتر میںلکھ دیگا اور اسے ہر دن اور ہر رات ہزار شہیدوں کا ثواب دیا جائے گا اور ہر قدم پرایک حج اور عمرہ کا ثواب لکھ دیا جائے گا ۔

اور جسم پر موجود جتنے اسکے جوڑ ہیں ان کے بدلے میں جنت میں اس کو ایک شہر عطا کیا جائے گا ۔

اتنا ثواب ہے گھر میں مددکرنے اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کا۔

 ایسا ہوتا ہے کہ گھر میںخواتین سب سے پہلے  سحری میں کچن میں داخل ہوتی ہیں اور آخر میں نکلتی ہیںاور آخر میں آرام کرنے کا موقع ملتا ہے اور مرد حضرات آرام سے اٹھتے ہیں اور سحریکر کے چلے جاتے ہیں اسی طرح افطار میں بھی  عورتیں   اس گرمی کےموسم میں روزہ رکھ کر کچن میں داخل ہوتی ہیں اور افطاری بناتی ہیں اور سب سے آخرمیں کچن سے باہر جاتی ہیں۔

عورتیں بھی روزہ دار ہیںاور مرد بھی دونوں کے روزے میں کوئی فرق نہیں اگر پروردگار کی خوشنودی خاصل کرنیہے تو ان روزہ داروں کی مدد کرنی ہوگی اور ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا ہوگا۔ 


آخرین مطالب

آخرین جستجو ها

enenenve دوره آموزشی مکالمه زبان انگلیسی longpuhotrie الّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد وَعَجِّل فَرَجَهُم دهلرانی مرکز دانلود سرگرمی و آموزش اراک (دانلود رایگان) مجری برگزاری عروسی های سنگین و مذهبی nocujage دو حرفه ای tainalisib